حیرت انگیز

انگلیاں چٹخانے کی آواز کا 'معمہ' ایک صدی بعد حل

انگلیوں کے جوڑ چٹخانا اکثر افراد کی عادت ہوتی ہے مگر ایسا کرنے پر اتنی تیز آواز کیوں آتی ہے؟

انگلیوں کے جوڑ چٹخانا اکثر افراد کی عادت ہوتی ہے مگر ایسا کرنے پر اتنی تیز آواز کیوں آتی ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس نے عرصے سے سائنسدانوں کو پریشان کرکے رکھا ہوا تھا۔

اب آخر کار سائنسدانوں نے یہ راز جاننے کا دعویٰ کیا ہے۔

یہ دعویٰ امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آیا۔

مزید پڑھیں : ہاتھ میں چھپا ہے کئی امراض کا علاج

اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں ایک ریاضیاتی ماڈل کے ذریعے تعین کیا گیا کہ کتنے ننھے بلبلے، جو پھٹ کر انگلیاں چٹخانے پر آواز پیدا کرتے ہیں، اس عمل میں استعمال ہوتے ہیں۔

اس ماڈل کے دوران جوڑوں کی حرکت سے پیدا ہونے والے دباﺅ کو پیدا کیا گیا، جس کے نتیجے میں انگلیوں کی طرح مائیکرو اسکوپک بلبلے پھٹے۔

انگلیاں چٹخانے سے پیدا ہونے والی آواز کا معمہ 20 ویں صدی کے آغاز سے سائنسدانوں کو الجھن میں ڈالے ہوئے تھا۔

اس سے پہلے یہ دعویٰ کیا جاتا تھا کہ ہاتھ میں ننھے بلبلے آواز پیدا کرتے ہیں جبکہ کچھ رپورٹس میں کہا گیا کہ چٹخانے کے بعد بھی یہ بلبلے موجود رہتے ہیں۔

مگر اب نئی تحقیق میں ثابت کیا گیا کہ انگلیاں چٹخانے کی آواز پیدا کرنے کے لیے ان بلبلوں کے جزوی حصوں کا پھٹنا ہی کافی ہوتا ہے۔

اسے ثابت کرنے کے لیے انگلیوں کے جوڑ کا ریاضیاتی ماڈل بنایا گیا اور اسے اس طرح استعمال کیا گیا جس طرح اپنی انگلیاں چٹخانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : انگلیاں ہر وقت ٹھنڈی کیوں رہتی ہیں؟

سائنسدانوں نے جانا کہ دباﺅ کی سطح میں تبدیلیاں ان بلبلوں کے پھٹنے کا باعث بنتی ہیں جو کہ جوڑوں کے سیال میں پائے جاتے ہیں۔

تحقیق کے نتائج کے مطابق کسی بھی آواز کو پیدا کرنے کے لیے تمام بلبلوں کے پھٹنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

اس تجربے کا اطلاق حقیقی زندگی میں کای گیا اور معلوم ہوا کہ انسانوں میں بھی یہ عمل ایسے ہی ہوتا ہے اور یہ بلبلے ہی آواز پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔

اس تحقیق کے نتائج جریدے سائنٹیفک رپورٹس میں شائع ہوئے۔

اور ہاں انگلیاں چٹخانے کی عادت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جوڑوں کے امراض یا دیگر طبی مسائل کا باعث بنتی ہے۔

تاہم کینیڈا میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ اس حوالے سے قابل اعتبار شواہد موجود نہیں کہ انگلیاں چٹخانا کسی قسم کے مسئلے کا باعث بنتا ہے۔

دوسری جانب کیلیفورنیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بھی بتایا گیا کہ اس عادت کے کسی قسم کے مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے مگر محققین کے بقول اس کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں۔