سخت سزائیں کسی مغربی ٹیم کا مقدر کیوں نہیں؟
کرکٹ کو ایک زمانے میں جینٹل مینز گیم کہا جاتا تھا۔ اس زمانے کے کھلاڑی جیت سے زیادہ کھیل کی ترویج اور اس کے قوانین کی پاسداری پر توجہ مرکوز رکھتے تھے اور اپنے ہر عمل سے خود کو نوجوانوں کے لیے ایک قابلِ تقلید مثال کے طور پر پیش کرتے تھے۔
اس زمانے میں میچز بھی بہت کم کھیلے جاتے تھے لیکن جب بھی میچ ہوتا تو مقابلہ کرنے والی ٹیمیں کھیل کی درست روح کے مطابق جیت کی کوشش کرتی تھیں۔ 60ء یا 70ء کی دہائی میں میچ کے دوران کھلاڑیوں کے جھگڑے اور تکرار کے چند واقعات کی مثالیں ملتی ہیں لیکن یہ واقعات اتنی معمولی نوعیت کے ہیں کہ ان کو آسانی سے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔
وقت نے 70 کی دہائی کے آخر میں کروٹ بدلی جب کیری پیکر نام کے ایک کاروباری شخص نے آسٹریلوی کرکٹ بورڈ سے ناراض ہوکر اپنی ذاتی کرکٹ لیگ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس لیگ کے لیے اس نے دنیا بھر کے نامور کھلاڑیوں سے بہت بڑی رقوم کے معاہدے کیے اور ان کو آسٹریلیا مدعو کرکے رنگین کپڑوں میں کرکٹ کھیلنے کا موقع اور تجربہ فراہم کیا۔
کیری پیکر کا یہ سرکس تو وقت کے ساتھ ساتھ اپنے انجام کو پہنچ گیا لیکن اس نے کھلاڑیوں میں پیسہ کمانے کی ایک ایسی آگ بھڑکا دی جس کی بدولت بہت سے کھلاڑی بے تحاشہ پیسہ کمانے اور ہر قیمت پر جیت کے حصول کے لیے ایسے اقدامات کرنے لگے جو واضح طور پر بے ایمانی کے زمرے میں آتے ہیں۔
کرکٹ میں جو بے ایمانیاں ناسور کی طرح پھیل رہی ہیں وہ میچ فکسنگ، اسپاٹ فکسنگ اور بال ٹمپرنگ ہیں۔ ان تینوں میں بنیادی فرق کیا ہے، آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں۔
میچ فکسنگ
میچ فکسنگ ایک ایسا عمل ہے جس میں پوری ٹیم یا ٹیم کے چند اہم کھلاڑی پیسے لے کر جان بوجھ کر میچ ہار جاتے ہیں۔
اسپاٹ فکسنگ
اسپاٹ فکسنگ میچ فکسنگ سے مختلف ہے۔ اسپاٹ فکسنگ میں کھلاڑی بڑی رقم کے عوض اپنا ایمان میچ کی ایک یا چند گیندوں کے لیے اس انداز سے بیچتے ہیں کہ ان کی حرکت کا میچ کے نتیجے پر اثر نہیں ہوتا۔ پاکستان سپر لیگ کے دوسرے ایڈیشن میں شرجیل خان اسپاٹ فکسنگ میں ملوث تھے اور انہوں نے رقم وصول کرکے جان بوجھ کر 2 گیندیں روکیں۔