پاکستانی کھلاڑیوں کو ویرات کوہلی سے کیا سبق سیکھنا چاہیے
6 دسمبر 2006
دہلی بمقابلہ کرناٹکا
رانجی ٹرافی، گروپ اے میچ
فیروز شاہ کوٹلہ اسٹیڈیم
میچ کی پہلی اننگز میں کرناٹکا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 446 رنز بنائے جس کے جواب میں دہلی کی ٹیم ابتدا میں ہی 5 وکٹیں گنوا بیٹھی اور جب دوسرے دن کا کھیل ختم ہوا تو دہلی نے 5 وکٹیں گنوا کر 103 رنز بنائے تھے۔
بھارتی کرکٹ کی نمائندگی کے خواہشمند اس 17 سالہ کرکٹر نے دن کے اختتام تک وکٹ نہ گنوائی اور 40 رنز پر پویلین لوٹ گیا۔ گھر لوٹا تو یہ رات اس کے لیے زندگی کی سب سے کٹھن رات ثابت ہوئی اور اس کے والد زندگی کی بازی ہار گئے۔
صبح ہوتے ہوتے یہ خبر دہلی کے ڈریسنگ روم سے ہوتی ہوئی حریف ٹیم کو بھی مل چکی تھی کہ نوجوان بلے باز والد کے انتقال کے سبب بیٹنگ کے لیے نہیں آئے گا اور ٹیم مینجمنٹ نے چیتنیا نندا کو پیڈ کرکے میدان میں اترنے کی ہدایت کی۔
لیکن اس وقت میدان میں موجود تمام ہی لوگوں ورطہ حیرت مبتلا ہوگئے جب انہوں نے رانجی ٹرافی میں اپنا پہلا سیزن کھیلنے والے نوجوان بلے باز کو کٹ میں ملبوس اور کٹ بیگ کے ساتھ میدان میں داخل ہوتا دیکھا۔
نوجوان نے والد کی آخری رسومات ادا کرنے پر اپنی ٹیم کی بقا کی جنگ لڑنے کو ترجیح دی کیونکہ اسے ایک کامیاب کرکٹر بن کر بھارتی کرکٹر بنتے دیکھنا اس کے والد کا خواب تھا اور یہ اس کی سیڑھی میں اہم قدم تھا۔
مذکورہ نوجوان 281 منٹ تک بیٹنگ کر کے 238 گیندوں کا سامنا کیا اور جب وہ 90رنز کی عمدہ اننگز کھیل کر آؤٹ ہوئے تو ان کی ٹیم کو فالو آن سے بچاؤ کے لیے محض 36 رنز درکار تھے۔
14رنز پر 4 وکٹیں گنوانے والی دہلی کی ٹیم اس نوجوان بلے باز کی بدولت میچ بچانے میں کامیاب رہی جس نے پویلین لوٹنے کے فوراً بعد گھر کی راہ لی اور اپنے والد کی آخری رسومات میں شرکت کی۔
یہ نوجوان اور کوئی نہیں بلکہ بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان اور بلا شک و شبہ اس وقت دنیا کے کامیاب ترین بلے باز ویرات کوہلی تھے جن کے والد پریم کوہلی اس رات 4 بجے انتقال کر گئے تھے۔