پاکستان

’چیف جسٹس عوامی معاملات کے بجائے 18 لاکھ زیر التواء مقدمات پر توجہ دیں‘

سپریم کورٹ کے میڈیکل کالجز کے خلاف اقدامات اور ہسپتالوں کے دورے کا نشانہ بھی ہمارا خاندان ہے، سابق وزیر اعظم

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار سے ملاقات کے کچھ دیر بعد ہی سابق وزیر اعظم نواز شریف نے چیف جسٹس پر اپنی تنقید جاری رکھتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ تماشا جو آپ یہاں دیکھ رہے ہیں زیادہ دن نہیں چلے گا‘۔

اسلام آباد میں احتساب عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے وزیر اعظم کی چیف جسٹس سے ملاقات کے حوالے سے بار بار سوال پوچھے جانے کے باوجود جواب دینے سے گریز کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں یقین سے نہیں کہہ سکتا لیکن سپریم کورٹ کے میڈیکل کالجوں کے خلاف اقدامات اور ہسپتالوں کے دوروں کا نشانہ بھی ہم ہیں کیونکہ ہمارا خاندان ایک فلاحی ادارہ شریف میڈیکل سٹی چلاتا ہے‘۔

انھوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اس اقدام کا مقصد ان کے خاندان کو نشانہ بنانا ہے لیکن یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہو گی۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ انھیں مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے ہٹانے کے بعد پارلیمنٹ کا کردار دوسروں کے ہاتھ میں چلا گیا کیونکہ انھیں پروویژنز آف الیکشن ایکٹ 2017 کو ختم کیا گیا تھا اور اور ایگزیکٹو کا کردار بھی چیف جسٹس نے اپنے سو موٹو کے ذریعے اپنے ذمے لے لیا ہے۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ عوامی معاملات پر ایکشن آزادی سے لیں لیکن مختلف عدالتوں میں زیر التوا 18 لاکھ مقدمات کا بھی کچھ کیا جانا چاہیے۔

انھوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس کو دوسرے کے بجائے ان معاملات پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔

خیال رہے کہ نواز شریف، ان کا خاندان اور رشتہ دار اسحٰق ڈار کو پاناما فیصلے میں سپریم کورٹ کی جانب سے دائر کیے گئے مختلف احتساب ریفرنسز کا سامنا ہے جس کی وجہ سے انھیں تیسری مرتبہ وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف کیا گیا تھا۔

بعد ازاں نواز شریف کو مسلم لیگ (ن) کی جانب سے الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت دوبارہ صدر منتخب کیے جانے کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا تھا کہ کوئی بھی نا اہل شخص کسی بھی جماعت کا سربراہ نہیں بن سکتا جس کی وجہ سے وہ صدارت کے عہدے سے بھی برطرف ہوگئے تھے۔

نواز شریف کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کا تاحیات قائد بنایا گیا تاہم ان کی جانب سے ججوں اور عدالت عظمیٰ کے خلاف تنقید جاری ہے۔