پی ایس ایل، بہتری کی گنجائش کہاں کہاں؟
سب سے پہلے تو یہ سجدۂ شکر کا وقت ہے کہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا تیسرا سیزن تمام تر اُمیدوں پر پورا اترا بلکہ کئی لحاظ سے تو توقعات سے بڑھ کر کامیاب ثابت ہوا۔ بالخصوص پاکستان میں ہونے والا آخری اور اہم ترین مرحلہ جس طرح بخیر و خوبی انجام پایا، اس میں شاندار مقابلے دیکھنے کو ملے، عوامی جوش و خروش اپنے عروج پر ملا، اس نے پاکستان سپر لیگ کو دنیا میں ایک اعلیٰ مقام پر پہنچا دیا ہے۔ اس پر پی ایس ایل انتظامیہ کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔
اب کوئی پی ایس ایل کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ آپ کو ہلکا سا اندازہ لگانا ہے تو اِس بات سے لگا لیں کہ پی ایس ایل کے تیسرے سیزن میں لیوک رونکی کی کارکردگی دیکھنے کے بعد اب انڈین پریمیئر لیگ میں کئی ٹیمیں غور کر رہی ہیں کہ وہ کسی زخمی یا نہ کھیلنے والے کھلاڑی کے متبادل کے طور پر اُنہیں بلا لیا جائے، حالانکہ نیلامی کے دوران کسی ٹیم نے رونکی کو نہیں خریدا تھا۔
بہرحال، اب سیزن تھری قصہ پارینہ بن چکا۔ پہلے سیزن کی کامیابیوں کا فائدہ دوسرے سال اُٹھایا گیا اور گزشتہ 2 سال کے مثبت نتائج ہمیں تیسرے سیزن میں بھرپور انداز میں نظر آئے۔ انتظامیہ کی نظریں تو ابھی سے چوتھے سیزن پر ہوں گی اور جیسے ہی کامیابی کا جشن ٹھنڈا ہوگا ویسے ہی اگلے سیزن کے لیے تیاریاں شروع ہوجائیں گی، لہٰذا یہی وہ وقت ہے کہ اپنی خامیوں کو جانچا جائے اور اُن پر کام کیا جائے۔ یہ بات تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے اور پی ایس ایل میں بھی بہتری کی کافی گنجائش موجود ہے۔