پاکستان

فیڈرل سروس ٹربیونل میں تعیناتی پر چیف جسٹس کی مشاورت کا بل منظور

رانا محمد حیات خان کی صدارت میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے حکومتی بل مفتقہ طور پر منظور کیا۔

اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے فیڈرل سروس ٹربیونل (ایف ایس ٹی) کے چیئرمین اور ممبران کی تعیناتی میں چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت شامل کرنے سے متعلق سروس ٹربیونل (ترمیمی) بل منظور کرلیا۔

موجودہ سروس ٹربیونل ایکٹ 1973 کے تحت صدر مملکت ہی ایف ایس ٹی کے چیئرمین اور ممبران کی تعیناتی کا حق رکھتے ہیں۔

یہ پڑھیں: سینیٹ قائمہ کمیٹی: احترام رمضان سے متعلق بل کی منظوری

چنانچہ مجوزہ ترمیمی بل کے بعد ایف ایس ٹی میں کسی بھی قسم کی تعیناتی میں چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت بھی شامل ہوگی۔

رانا محمد حیات خان کی صدارت میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے حکومتی بل منظور کیا۔

کمیٹی کے ورکنگ پیپر کے مطابق سپریم کورٹ نے 25 مارچ 2013 کے فیصلے میں ایف ایس ٹی کے چیئرمین اور ممبران کی تعیناتی کے لیے چیف جسٹس کی مشاورت ضروری قرار دی تھی۔

بل پر تفصیلی بحث کے بعد کمیٹی نے متفقہ طور پر منظور کیا۔

کمیٹی کے رکن قومی اسمبلی محمد مزمل قریشی کی جانب سے پیش کردہ پاکستان بیت المال (ترمیمی) بل 2017 بھی زیر بحث آیا لیکن غیر موزوں قرار دے کر مسترد کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سر عام پھانسی کا معاملہ: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے بل کی مخالفت کردی

کمیٹی نے پاکستان بیت المال کو ہدایت کی کہ ضرورت مند افراد کے لیے رمضان پیکج کی تقسیم کو یقینی بنائیں۔

اجلاس میں کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ بیت المال کی جانب سے گزشتہ رمضان میں 50 ہزار پیکجز پورے ملک میں تقسیم کیے گئے اور رواں برس اس کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔

تعلیم سے متعلق مسائل

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں فیڈرل ڈارئریکٹوریٹ آف ایجوکیشن (ایف ڈی ای) کے تحت گزشتہ چند برس سے یومیہ اجرت پر تدریسی فرائض انجام دینے والے اساتذہ کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔

رکن قومی اسمبلی اسد عمر نے کہا کہ کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویژن (کیڈ) نے معاملہ حل کرانے کی یقین دہانی کرائی تھی جبکہ متعدد دیگر شعبوں کے یومیہ اجرت کے ملازمین کو مستقل کردیا گیا ہے۔

ایف ڈی ای کے ڈائریکٹر جنرل ہسنت قریشی نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے یومیہ اجرت پر تعینات اساتذہ کے خلاف فیصلہ سنایا تھا۔

تاہم کمیٹی کے رکن اسد عمر اور ملک اکبر نے کہا کہ ایف ڈی ای اور کیڈ نے عدالت کے سامنے صحیح انداز میں اپنا مقدمہ پیش نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: سینیٹ کمیٹی کی بچوں سے زیادتی کے مجرموں کو پھانسی کی تجویز

کمیٹی نے کیڈ کو ہدایت کی عدالت کے فیصلے کو مد نظر رکھتے ہوئے معاملہ احسن طریقے سے حل کیا جائے۔

اس سے قبل رکن قومی اسمبلی نفیسہ خٹک نے کہا کہ اسلام آباد کے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی شدید کمی ہےجس کے باعث تدریسی ماحول تنزلی کا شکار ہے۔

جس پر ایف ڈی ای کے چیف نے اعتراف کیا اور بتایا کہ 2016 میں وزیراعظم آفس سے درخواست کی گئی تھی کہ 2 ہزار 300 تدریسی اور غیر تدریسی عملہ تعینات کیا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ ہماری سمری یہ کہہ کر مسترد کردی گئی کہ پہلے ایف ڈی ای خالی عہدوں کو پُر کیا جائے تاہم ایف ڈی ای نے 530 اسامیوں پر مشتمل اشتہار دیا گیا تو یومیہ اجرت لینے والے ملازمین نے عدالت سے حکمِ امتناعی لے لیا۔

اس کے علاوہ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ پرائیوٹ ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی ای آئی آراے) کو ملازمین کو اتھارٹی کے چیئرمین کی جانب سے ہراساں کیا جارہا ہے۔

پی ای آئی آر اے کے چیئرمین ہسنت قریشی نے الزامات کو مسترد کردیا۔

انہوں نے کہا کہ آفس دیر سے آنے والے ملازمین کے خلاف کارروائی کی گئی تو ان پر ہراساں کرنے کا الزام لگا دیا گیا۔

دوسری جانب کمیٹی نے کیڈ کو معاملے کی تحقیقات کرکے رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کردی۔


یہ خبر 27 مارچ 2018 کو ڈان اخبارمیں شائع ہوئی