یوم آب ہم سے کڑے فیصلوں کا تقاضا کررہا ہے
’جب آپ حالتِ جنگ میں ہوتے ہیں تو آپ کو کڑے فیصلے کرنے پڑتے ہیں، ایسی حالت میں آپ اتفاقِ رائے کو اہمیت نہیں دیتے‘ یہ خیالات تھے ماہرِ آبیات ڈاکٹر پرویز امیر کے جو آج کل پاکستان واٹر پارٹنرشپ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اب پانی کی کمی اِس حد تک پہنچ چکی ہے کہ پاکستان کو کڑے فیصلے کرنے ہوں گے، ایسے فیصلے جو ملک کی بقا کے لیے ضروری ہوں۔
پاکستان میں پانی کے مسائل پر بات کرنے سے پہلے بتاتے چلیں کہ آج کا دن یعنی 22 مارچ دنیا بھر میں یوم آب کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس سال کا عنوان ہے ‘فطرت برائے آب: ہم فطرت کے ذریعے کس طرح 21ویں صدی میں پانی کے مسائل سے نمٹ سکتے ہیں‘۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی 1993ء میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ یہ دن دنیا بھر میں یومِ آب کے طور پر منایا جائے گا۔ اس دن کو منانے کا مقصد آبی وسائل کی اہمیت کا احساس دلانا اور اربابِ اختیار کو اس جانب متوجہ کرنا ہے کہ وہ آبی حوالے سے مسائل کے حل کے لیے ممکنہ تمام کوششیں جاری رکھیں۔
پاکستان کو قدرت نے وسائل کی دولت سے مالامال کیا ہے۔ قطبین کے بعد یہیں پر ہی سب سے زیادہ گلیشیئرز ہیں جن کا پانی ہمارے دریاؤں کو رواں دواں رکھتا ہے۔ 5 بڑے دریاؤں کے علاوہ دسیوں چھوٹے دریا، ندی نالے چشمے جھیلیں موجود ہیں لیکن ہماری شاندار ’صلاحیتوں‘ کی بدولت آج ہمارا شمار پانی کی شدید قلت والے ممالک میں کیا جاتا ہے۔
ملک کا بیشتر حصہ خشک سالی کا شکار رہتا ہے اور اگر کبھی بارانِ رحمت زیادہ برس جائے تو ہم سیلاب میں ڈوبنے لگتے ہیں۔ نہ ہمیں خشک سالی سے نمٹنا آتا ہے اور نہ ہی ہم سیلاب کے اضافی پانی کو محفوظ کرسکتے ہیں۔ ہماری اہلیت تو اس سے عیاں ہے کہ 70 سال گزرنے کے باوجود ہم ایک ’واٹر پالیسی‘ سے بھی محروم ہے۔ اس سال سنا ہے کہ ڈرافٹ فائنل کرلیا گیا ہے اور جلد ہی اسے منظوری کے لیے کابینہ میں پیش کردیا جائے گا۔
پڑھیے: ‘دنیا کے 5 ارب لوگوں کو پانی کی قلت کا سامنا ہوسکتا ہے‘
جس وقت پاکستان آزاد ہوا، ہمارے آبی وسائل بہترین حالت میں تھے۔ ملک میں ہر فرد کو پانی کی دستیابی 5000 کیوبک میٹر تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے یہ دستیابی اور بہتر ہونی چاہیے تھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ گھٹتی چلی گئی اور اب فی فرد پانی کی دستیاب مقدار 1000 کیوبک میٹر ہوچکی ہے۔ ماہرین اسے اور بھی کم بتاتے ہیں۔
آبی وسائل کی حفاظت اور دستیابی میں جنگلات کا بھی اہم کردار ہے۔ جنگلات کا وسیلہ بارشوں کے نظام کو ریگولیٹ کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پانی کے وسائل اور جنگلات ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ جنگلات کے بغیر آپ بہتر آبی وسائل کا تصور نہیں کرسکتے۔
آبی وسائل کے تحفظ کے لیے زمین کا جنگلات سے زیادہ سے زیادہ ڈھکا ہونا بہت ضروری ہے لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں یہ وسیلہ 5 فیصد سے زیادہ نہیں ہے اور یہ بھی سرکاری اعداد و شمار ہیں، واقفانِ حال تو اسے صرف 2 فیصد بتاتے ہیں، اور وہ بھی ٹمبر مافیا کی زد پر ہے۔