پاکستان

’پروین رحمٰن کے قتل میں طالبان نہیں، لینڈ مافیا ملوث تھی‘

قتل میں تحریکِ طالبان کے سینئر کمانڈر قاری بلال کو مرکزی ملزم قرار نہیں دیا جا سکتا، جے آئی ٹی

اسلام آباد: سندھ پولیس پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) نے عدالت اعظمیٰ کے سامنے تسلیم کیا گیا کہ اورنگی ٹاؤن پائلٹ پراجیکٹ (او پی پی) کی ڈائریکٹر پروین رحمن کے قتل کی سازش میں لینڈ مافیا ملوث تھی کیوںکہ وہ گوٹھ آباد اسکیم پر کام کررہی تھیں۔

واضح رہے کہ 13 مارچ 2013 کو اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی ڈائریکٹرپروین رحمن کو قتل کردیا تھا جس کے قتل کے محرکات جاننے کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی، ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف ویسٹ زون عامر فاروقی نے جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے سامنے رپورٹ پیش کی۔

یہ پڑھیں: پروین رحمٰن پر بنی ڈاکیومینٹری فلم نے ایوارڈ جیت لیا

ابتدائی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ’پروین رحمن کے قتل میں تحریکِ طالبان کے سنیئر کمانڈر قاری بلال کو مرکزی ملزم قرار نہیں دیا جا سکتا‘۔

واضح رہے کہ پروین رحمن کے قتل کے اگلے ہی روز 14 مارچ 2013 کو قاری بلال کو مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔

پروین رحمن اپنے آفس سے گھر جارہی تھیں کہ موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم افراد نے منگوپیر روڈ پر بنارس پل کے پاس ان پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں گولیاں ان کی گردن پر لگیں تاہم ان کا ڈرائیور عباسی شہید ہسپتال لے جانے میں کامیاب رہا لیکن وہ جانبرنہیں ہو سکیں۔

دوسری جانب پروین رحمن کی بہن عقیلہ اسماعیل کے وکیل راحیل کامران شیخ نے جے آئی ٹی کی تفتیش پر اطمینان کا اظہار کیا لیکن ساتھ ہی خدشہ ظاہر کیا کہ جے آئی ٹی کی ترتیب مستقبل میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

دوسری جانب ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سندھ شہریار نے عدالت کو یقین دلایا کہ جے آئی ٹی کی ترتیب نہیں بدلے گی۔

یہ بھی پڑھیں: پروین رحمٰن قتل کیس: سپریم کورٹ کا عدالتی کمیشن کی تشکیل کا حکم

جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سب انسپکٹر اشفاق بلوچ اور سابق ایس ایچ او پیرآباد پولیس اسٹیشن عبدالمعید کے بیان کی روشنی سے واضح ہوتا ہے کہ قاری بلال کا پروین رحمن قتل کیس میں کوئی دخل نہیں۔

رپورٹ کے مطابق قاری بلاول کو طالبان کے ایک دھڑے نے ذاتی چپقلش کی بنیاد پر قتل کیا بعدازاں قاری بلال کی لاش کو دو پولیس اہلکاروں نے اپنی تحویل میں لیا اور دعویٰ کیا کہ قاری بلال پولیس مقابلے میں مرا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ دیگر پولیس افسران نے تصدیق کی عبدالمعید ڈسٹرکٹ ویسٹ ایس ایس پی آصف اعجاز شیخ کا ذاتی افسر سمجھا جاتا تھا اور ضلع میں دیگر پولیس اہلکاروں کے مقابلے میں زیادہ اثر ورسوخ والا تصور ہوتا تھا تاہم عبدالمعید کے لیے واقعات اور شواہد کو موڑ توڑ کر پیش کرنا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔

بتایا گیا کہ پولیس افسر اشفاق بلوچ کا پیشہ وارانہ ریکارڈ صاف نہیں اور وہ ماضی غیر قانونی کاموں میں ملوث بھی پایا گیا۔

مزید پڑھیں: خاتون سے سرِ عام بدسلوکی کرنے والے اہلکار معطل

رپورٹ کے مطابق اشفاق بلوچ نے قاری بلال سے متعلق پولیس مقابلے کے بارے میں جھوٹ بولا جبکہ وہ شواہد کو وسیع پیمانے میں موڑ توڑ کر کے پیش میں نے مرکزی ملزم نہیں تھا.

جے آئی ٹی کے مطابق سابق ایس آئی عبدالمعید نے شواہد کو اپنے حساب کتاب سے پیش کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا تاہم موجودہ شواد کی روشنی میں قاری بلال کا پروین رحمن قتل کیس سے کوئی تعلق نہیں ملا۔

واضح رہے کہ ایس آئی عبدالمعید خلاف ضابطہ کارروائیوں کے باعث پولیس سروس سے معطل ہیں اور کسی دوسرے قتل کیس میں مقدمے کا سامنا کررہے ہیں۔

جے آئی ٹی نے قبول کیا کہ پروین رحمن قتل کیس کی ’صحیح تفتیش‘ ان کے قتل کے تین سال بعد شروع ہوئی تاہم کئی برس گزر جانے کے بعد جے آئی ٹی کے لیے شواہد جمع کرنا قدرے مشکل ہے۔

عدالت نے جے آئی ٹی کو حتمی رپورٹ 24 اپریل سے پہلے جمع کرانے کا حکم دے دیا۔


یہ خبر 22 مارچ 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی