دور حاضر میں تاریخ پر تحقیق کرنے والے تاریخ کی دستیاب کُتب کی مدد سے اپنا تحقیقی کام انجام دیتے ہیں۔ جب تاریخ کے کسی پہلو، واقعے یا شخصیت پر صرف ایک ہی تحریری حوالہ دستیاب ہو تو ہمیں مجبوراً اس پر ہی منحصر رہنا پڑتا ہے۔
اگر خوش قسمتی سے ایک سے زائد تحریری حوالے یا کُتب مل جائیں تو محقق واقعی نصیبوں والا ہے، یوں اسے تاریخ کا قریب سے تجزیہ کرنے اور اصل حقائق تک پہنچنا اور دیگر لوگوں تک پہنچانا کافی آسان ہوجاتا ہے۔
کچھ اسی طرح سندھ میں ارغُونوں، ترخانوں اور مُغلوں کے ادوار کی تاریخ پر کام کرنے والے بھی کافی خوش نصیب ہیں کہ جن کے پاس ان ادوار کو جاننے اور سمجھنے کے لیے ایک سے زائد کتابیں موجود ہیں۔
مرزا عیسیٰ ترخان ایک بُردبار اور صبر و تحمل کے پیکر تھے۔ وہ شاہ بیگ ارغون کی چھاؤں میں بڑے ہوئے تھے۔ وہ یقیناً ایک بہادر سپاہی تھے اور اُنہیں ’ترخان‘ کا اعزاز اپنے آبا ؤ اجداد سے ورثے میں ملا تھا۔ مرزا شاہ حسن ارغون ابھی حیات تھے مگر حکیموں کے مشورے پر وہ پانی کے اُوپر رہتے تھے کہ زمین پر رہنا اُن کے لیے موت کا پیغام تھا ، چنانچہ اُن کی کشتی ہر وقت دریائے سندھ پر ہچکولے کھاتی کبھی سہون چلی جاتی تو کبھی ٹھٹھہ پہنچ جاتی۔
بادشاہ سلامت تخت و تاج سے دور ہو تو ریاست میں بغاوت کے بیجوں کو نفرت کی گرم ہوا مل جاتی ہے اور وہ جڑ پکڑ لیتے ہیں، یہاں بھی کچھ ایسا ہوا۔ 1554ء میں ارغونوں اور ترخانوں نے مل کر مرزا عیسیٰ کو اپنا سردار چُن لیا۔ ویسے تو مرزا عیسیٰ (اول) کے 8 بیٹے اور 5 بیٹیاں تھیں مگر ننگر ٹھٹھہ کے سیاسی منظرنامے میں ہمیں اُن کے تین بیٹوں، مرزا صالح بیگ، مرزا باقی بیگ اور مرزا جان بابا کا کردار کافی متحرک نظر آتا ہے۔
یہ پہلی مغل نسل تھی جن کی والدہ مقامی سندھی خاندان سے تھیں۔ ’مرزا جان بابا‘ جو اپنے بھائی کے کہنے پر قتل ہوا، اُس کا ذکر پھر کبھی ضرور کریں گے، مرزا محمد صالح اور مرزا باقی بیگ جو آپس میں بھائی تو تھے مگر ان کی آپس میں کبھی نہیں بنی۔ جبکہ مرزا عیسیٰ نے ان دونوں بھائیوں کی تَربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، اُن کی تربیت کے لیے مُلاں بہبود، شیرنگ خان اور فتح خان کو مقرر کیا گیا تھا۔
یہ شاید مرزا عیسیٰ کی بدنصیبی تھی کہ ان کی شخصیت میں شامل صبر و تحمل اور برداشت کی خاصیت اُن کے بیٹوں میں مُنتقل نہ ہو سکی۔ مرزا صالح بے وقوف اور شیخی مارنے کا فن رکھتے تھے۔ وہ خیالوں خیالوں میں اکبر بادشاہ کے دربار میں جا پہنچتے۔
مرزا باقی جذباتی ضرور تھے مگر وہ ایک ذَہین انسان تھے، اُنہیں حکومت کرنے کا جنُون کی حد تک شوق تھا مگر جب تک نَصیبوں کے آسمان پر قِسمت کی فاختہ پَر نہ پھڑپھڑائے تب تک جنون و جذبات کو حقیقت کو روپ دینے کا موقع نہیں ملتا۔ دو بھائیوں کی اس مخالف طبیعوں نے انہیں ایک ہونے نہیں دیا البتہ ایک دوسرے کا دُشمن بنادیا۔ مرزا عیسیٰ ترخان، مرزا باقی کے مقابلے میں مرزا صالح کو زیادہ چاہتے تھے۔ باپ کی اس چاہت کی وجہ سے مرزا صالح کو کھُلی چھوٹ حاصل ہوئی اور وہ حکومت کے تمام معاملات چلانے لگے۔
اس کا نزلہ مرزا باقی بیگ پر جا گرا۔ مرزا صالح نے اپنی حکومت میں اُن کے رہنے کے لیے زمین تنگ کردی۔ مرزا عیسیٰ اپنے چھوٹے بیٹے مرزا جان بابا کو سب سے زیادہ چاہتے تھے۔ مرزا صالح کو جب یہ لگا کہ والد کی اپنے چھوٹے بیٹے کی چاہت اس کے لیے کوئی مصیبت کھڑی کرسکتی ہے تو اُنہوں نے جان بابا سے تُرش رویہ رکھا، وہ اس رویے کی تلخی نہ سہہ کر ’ونگو‘ کی طرف اپنے ماماؤں کے پاس چلے گئے، جہاں اُنہوں نے سمیجوں میں سے شادی کی جس سے مرزا عیسیٰ ثانی پیدا ہوئے جو اپنے زمانے کے ایک نامور حاکم اور ایک اچھے انسان ثابت ہوئے۔