الیکشن کمیشن کی عدم دلچسپی کے باوجود قانون سازوں کا حلقہ بندیوں پر کام جاری
قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے حلقہ بندی کا اجلاس میں ارکان پارلیمنٹ نے الیکشن کمیشن کی نئی حلقہ بندیوں پر اعتراضات اٹھا تے ہوئے ڈائریکٹر جنرل سے وضاحت طلب کرلی۔
ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کے بعد الیکشن کمیشن کے حکام نے اسے تحریری شکل میں جمع کرانے کا مشورہ دے دیا۔
نئی حلقہ بندیوں سے متعلق، قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس، وفاقی وزیر برائے نجکاری دانیال عزیز کی زیر صدارت ہوا۔
اجلاس میں غیر سرکاری تنظیم (فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک) فافن کے حکام نے نئی حلقہ بندیوں پر جاری کردہ رپورٹ پر بریفنگ دی جس میں ان کا کہنا تھا کہ 26 فیصد حلقوں میں آبادی کا 10 فیصد سے زائد تناسب ہے جبکہ 72 حلقوں میں آبادی کے تناسب میں فرق ہے۔ان کا کہنا تھا کہ این اے 35 بنوں میں باقی حلقوں کی نسبت 50 فیصد آبادی کا تناسب زیادہ ہے اور شہری اور دیہی علاقوں میں جو یکسانیت ہونی چاہیے وہ اسلام آباد کے حلقوں میں نہیں ہے۔
جمعیت علماء اسلام (ف) کی رکن قومی اسمبلی نعیمہ کشور نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہہ رہا تھا کہ حلقہ بندیوں پر بحث نہیں کریں گے مگر حلقہ بندیوں پر بحث چلے گی اسے کوئی نہیں روک سکتا۔
جے یو آئی (ف) کی ایک اور رکن عالیہ کامران کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے اپنی ویب سائٹ پر جو نقشے دیے ہیں وہ بھی غلط ہیں، الیکشن کمیشن کے نقشے اور سروے آف پاکستان کے نقشوں میں فرق ہے۔
مزید پڑھیں: نئی حلقہ بندی: ’پارلیمانی کمیٹی دخل اندازی سے باز رہے‘
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ اسلام آباد کے نقشوں سے تو بلوچستان کے نقشے زیادہ بہتر ہیں، لگتا ہے اسلام آباد کے نقشے تحریک انصاف کے اسد عمر نے بنائے۔
انہوں نے دانیال عزیز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دانیال عزیز صاحب آپ الیکشن کمیشن کو کچھ عرصے کے لیے ٹھیکے پر لے لیں، ہماری باتوں یا مشوروں کو مداخلت مت سمجھا جائے، ہم الیکشن کمیشن کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔
دانیال عزیز نے کہا کہ ہم سب ملکر حلقہ بندیوں سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل تلاش کر رہے ہیں، ہمیں حلقہ بندیوں پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی حلقہ بندیوں میں واضح ابہام موجود ہے جس پر الیکشن کمیشن حکام وضاحت کریں۔
انہوں نے حلقہ بندیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حلقہ بندیوں کے نقشے ایسے بنے ہوئے ہیں جیسے جیسے کسی ساتویں جماعت کے بچے نے ہاتھ سے بنائے ہوں۔
اجلاس میں الیکشن کمیشن کے حکام نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ فافن کی رپورٹ پر کوئی بحث نہیں کریں گے، آبادی کے تناسب میں جو فرق ہے اس پر اعتراض داخل کرایا جا سکتا ہے تاہم الیکشن کمیشن اور فافن کے طریقہ کار میں فرق ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کے لیے کوٹہ مختص کیا جس کے بعد صوبوں کے چیف سیکرٹریز نے نقشے فراہم کیے تھے۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ حلقہ بندیوں پر کام کرنے والی کمیٹیاں نقشوں پر بریف کر سکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نئی حلقہ بندیاں: ‘الیکش کمیشن نے 300 تجاویز پر کس سے مشاورت کی؟‘
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دانیال عزیز کا کہنا تھا کہ حلقہ بندیاں قانون اور رولز کے مطابق ہونے چاہیں، ابھی صرف ہاؤس کے سامنے سفارشات رکھی جائیں گی اور 3 اپریل سے پہلے مرکزی کمیٹی کو دستاویزات جمع کرا دیں گے۔
ڈان کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق ملک میں ہونے والی نئی حلقہ بندیوں میں صوبہ سندھ کے حلقے تو برقرار ہیں مگر مختلف اضلاع کے درمیان نشستوں کی تقسیم کا تناسب بدل گیا ہے اور کراچی میں قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ جبکہ اندرون سندھ کی نشستوں میں کمی ہوگئی ہے۔
الیکشن کمیشن سے حاصل کی گئی دستاویز کے مطابق صوبہ سندھ کے لئے مختص 61 حلقوں میں دیہی اور شہری کے تناسب میں تبدیلی کر دی گئی ہے۔
شہر قائد کے ماضی میں قومی اسمبلی کے 20 حلقے تھے جبکہ اب 21 حلقے ہونگے اور کراچی کے ملیر کینٹ کا ایک حلقے کے نصف میں حصہ تھا تاہم اب ملیر کینٹ کے قومی اسمبلی کے 3 حلقے ہونگے جبکہ باقی کراچی کے حصے میں 18 نشستیں آئینگی۔
دوسری جانب اندرون سندھ کے ماضی میں قومی اسمبلی کے 41 حلقے تھے جو کم ہو کر 40 ہوگئے ہیں۔
دستاویز سے معلوم ہوا ہے کہ سندھ کے سب سے بڑے حلقے این اے 197 کشمور کی آبادی 10 لاکھ 89 ہزار جبکہ سب سے چھوٹے حلقے این اے 199 شکار پور کی آبادی 5 لاکھ 88 ہزار سے زائد ہے۔
نئی حلقہ بندیوں کے بعد حیدر آباد، جیکب آباد اور لاڑکانہ، میر پور خاص، دادو اور ٹھٹھہ کے قومی اسمبلی کے حلقوں میں کمی ہوگئی ہے۔
مزید پڑھیں: نئی حلقہ بندیاں: صوبائی اسمبلی میں لاہور کی 5 نشستوں میں اضافہ
قمبر و شہداد کوٹ، عمر کوٹ، مٹیاری اور کشمور، ٹنڈو الہ یار، ٹنڈو آدم خان، سجاول اور جام شورو میں بھی قومی اسمبلی کے نئے حلقے ہونگے۔
نئی حلقہ بندیوں میں فاٹا میں بھی قومی اسمبلی کی 12 نشستیں برقرار ہیں مگر مختلف ایجنسیز کے درمیان نشستوں کا تناسب تبدیل ہوگیا ہے، کرم ایجنسی کی نشستوں میں کمی جبکہ باجوڑ ایجنسی کی نشستوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کی دستاویز کے مطابق ماضی میں کرم ایجنسی کی قومی اسمبلی میں 2 نشستیں تھیں جبکہ اب صرف 1 نشست ہوگی اور باجوڑ ایجنسی کی ماضی میں 2 جبکہ اب 3 نشستیں ہونگی۔
نئی حلقہ بندیوں کے مطابق جنوبی وزیرستان اور خیبر ایجنسی کی قومی اسمبلی میں دو دو نشستیں ہونگی، شمالی وزیرستان، مہمند اور اورکزئی ایجنسی کو ایک ایک نشست ملے گی اور قبائلی علاقہ جات کے فرنٹیئر ریجنز کے حصے میں بھی ایک نشست آئے گی۔
الیکشن کیمشن کی دستاویز کے مطابق فاٹا کے سب سے بڑے حلقے این اے 46 کرم ایجنسی کی آبادی 6 لاکھ 19 ہزار سے زائد جبکہ فاٹا کے سب سے چھوٹے حلقے این اے 47 اورکزئی ایجنسی کی آبادی 2 لاکھ 54 ہزار سے زائد ہے۔