نقطہ نظر

پی ایس ایل، اعداد و شمار کی نظر سے

آپ نے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ انفرادی سطح پر نمایاں ترین بلے باز انہی ٹیموں کے ہیں جو پلے-آف تک پہنچی ہیں۔

پاکستان سپر لیگ بالآخر دیارِ غیر سے اپنے وطن پاکستان واپس آ رہی ہے۔ پی ایس ایل کا پہلا سیزن مکمل طور پر متحدہ عرب امارات میں ہوا تھا جبکہ پچھلے سال کا محض فائنل لاہور میں کھیلا گیا تھا لیکن اس بار نہ صرف فائنل بلکہ دونوں ایلی منیٹرز بھی پاکستان ہی کے میدانوں پر ہوں گے۔ ایلی منیٹرز کے لیے قذافی اسٹیڈیم کا انتخاب کیا گیا ہے جبکہ فائنل کے لیے کراچی کے تاریخی نیشنل اسٹیڈیم کا کہ جہاں تیاریاں اپنے آخری مراحل میں ہیں۔

متحدہ عرب امارات میں پی ایس ایل کے رواں سیزن میں کُل 31 میچز کھیلے گئے جن میں پہلا کوالیفائر بھی شامل تھا، جس میں اسلام آباد یونائیٹڈ نے کراچی کنگز کے خلاف ایک ناقابلِ یقین کامیابی حاصل کی اور دوسری بار فائنل تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔

اب سیزن کے باقی تینوں مقابلے پاکستان میں ہوں گے۔ پہلا مقابلہ کل یعنی منگل کے روز پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے درمیان کھیلا جائے گا، جہاں کا فاتح بدھ کو کراچی کنگز کا مقابلہ کرے گا۔ اس میچ میں جیتنے والی ٹیم اتوار 25 مارچ کو کراچی میں پی ایس ایل کی خوبصورت ٹرافی کے حصول کے لیے اسلام آباد سے حتمی جنگ لڑے گی۔

پاکستان پہنچتے ہی جہاں کنڈیشنز بدلیں گی، وہیں بہت کچھ تبدیل ہوگا۔ اب تک ہم نے بیشتر مقابلوں میں متحدہ عرب امارات کے ادھ خالی میدان دیکھے تھے لیکن اب باقی میچوں میں تل دھرنے کی جگہ بھی نہ ملے گی۔ جوش و خروش اپنے عروج پر ہے لیکن یہی وقت ہے کہ ہم ذرا پیچھے نظر ڈالیں اور اب تک گزرنے والے کامیاب سیزن کے کامیاب ترین کھلاڑیوں کو دیکھیں۔

بہترین بیٹسمین

پی ایس ایل کے تیسرے سیزن کے اماراتی مرحلے میں جو بیٹسمین ابھر کر سامنے آئے، ان میں سب سے نمایاں نام پہلی بار پی ایس ایل کھیلنے والے لیوک رونکی کا ہے۔

اسلام آباد یونائیٹڈ کے رونکی نے رواں سیزن میں اب تک 10 میچز کھیلے ہیں اور 4 نصف سنچریوں کی مدد سے سب سے زیادہ 383 رنز بنا چکے ہیں۔ کراچی کنگز کے خلاف کوالیفائر میں کھیلی گئی 94 رنز کی اننگز تو ایک شاہکار تھی۔ اگر ہدف زیادہ ہوتا تو شاید وہ سنچری بھی بنا ڈالتے۔ بہرحال، اب تک کھیلے گئے مقابلوں میں رونکی کا بیٹنگ اوسط 42 سے زیادہ ہے اور اسٹرائیک ریٹ 180 کے قریب۔ دونوں لحاظ سے وہ سیزن کے نمایاں ترین کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کراچی میں ان کا جادو کیسے چلتا ہے؟

مزید پڑھیے: پی ایس ایل 3: راؤنڈ میچوں کے یادگار ترین لمحات

اس سیزن میں دوسرے نمبر پر پشاور زلمی کے کامران اکمل ہیں۔ ’کامی‘ نے اب تک 10 میچوں میں 43 سے زیادہ کی اوسط اور 146 کے اسٹرائیک ریٹ سے 347 رنز بنائے ہیں۔ اس میں سیزن کی واحد سنچری بھی شامل ہے جو کامران اکمل نے لاہور قلندرز کے خلاف بنائی تھی۔ 107 رنز کی اس ناٹ آؤٹ اننگز کی بدولت کامران اکمل پی ایس ایل تاریخ میں 2 سنچریاں بنانے والے پہلے بیٹسمین بھی بنے۔ اب پشاور زلمی کو اگلے مقابلے میں ناک آؤٹ کا سامنا ہے یعنی کوئٹہ کے خلاف لازمی جیت درکار ہے جس میں کامران اکمل کا کردار بہت اہم ہوگا۔

اس کے بعد نام آتا ہے کراچی کنگز کے بابر اعظم کا، جو اب تک 339 رنز بنا چکے ہیں۔ اوسط اور اسٹرائیک ریٹ کے اعتبار سے تو شاید وہ رونکی اور کامران کا مقابلہ نہ کرسکیں لیکن ایک اینڈ سے اگر تسلسل کے ساتھ اچھے رنز بنیں تو باقی کھلاڑی اس کمی کو پورا کرسکتے ہیں۔ بابر اعظم نے رواں سیزن میں 4 نصف سنچریاں بنائی ہیں۔ ان کے رنز بنانے کا اوسط 37 سے زیادہ ہے اور اسٹرائیک ریٹ بھی 119 ہے۔

اس فہرست میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے شین واٹسن بھی ہیں جنہوں نے سیزن میں سب سے زیادہ 22 چھکے لگائے، لیکن افسوس کہ اب وہ مزید ایکشن میں نظر نہیں آئیں گے۔ وہ لاہور میں ہونے والے مقابلے میں کوئٹہ کی نمائندگی نہیں کر رہے۔ وہ بھی سیزن میں 300 سے زیادہ رنز بنانے والے بلے بازوں میں شامل ہیں۔ واٹسن نے 10 میچز کھیلے اور 35 کی اوسط اور 135 کے اسٹرائیک ریٹ سے 319 رنز بنائے۔ 90 رنز کی ناٹ آؤٹ اننگز بھی اس میں شامل تھی۔

آپ نے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ انفرادی سطح پر نمایاں ترین بلے باز انہی ٹیموں کے ہیں جو پلے-آف تک پہنچی ہیں۔ ملتان کے کمار سنگاکارا اور فخر زمان نے گو کہ بہت اچھی کارکردگی دکھائی لیکن وہ 300 رنز کا سنگ میل عبور نہ کرسکے۔

بہترین باؤلرز

اگر باؤلرز کی طرف نظر دوڑائیں تو سب سے اوپر ایسا نام آتا ہے جو حیران کن ہے۔ اسلام آباد یونائیٹڈ کے فہیم اشرف۔ 11 میچوں میں 17 وکٹیں، صرف 16 کی اوسط کے ساتھ، نوجوان باؤلر کا بڑا کارنامہ ہے۔ اسلام آباد کی کامیابیوں میں فہیم نے بہت اہم کردار ادا کیا اور کراچی، لاہور اور کوئٹہ کے خلاف 3 اہم میچوں میں 3، 3 شکار کیے۔

مزید پڑھیے: پی ایس ایل کے تیسرے سیزن کی دریافت کون؟

دوسرے نمبر پر کراچی کنگز کے عثمان شنواری ہیں۔ اگر کسی ایک باؤلر نے اپنی رفتار، یارکرز پھینکنے اور وکٹیں لینے کی صلاحیت سے متاثر کیا ہے تو وہ عثمان شنواری ہیں۔ انہوں نے 9 میچوں میں 15 وکٹیں لی ہیں، وہ بھی صرف 14 کی اوسط کے ساتھ۔ راؤنڈ مرحلے کے آخری مقابلے میں اسلام آباد کے خلاف اہم کامیابی میں عثمان خان کا کردار بہت اہم تھا جنہوں نے صرف 17 رنز دے کر 4 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ ایک ایسے موقع پر جب محمد عامر بجھے بجھے نظر آ رہے تھے، تو عثمان نے کراچی کی کامیابیوں میں اہم کردار ادا کیا۔

پشاور زلمی کے وہاب ریاض نے 10 میچوں میں 18 کی اوسط سے 14 وکٹیں لی ہیں اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ ان کی مونچھیں اور پھر وکٹ لینے کے بعد ان پر انگلیاں پھیر کر جشن منانا پی ایس ایل کے دلچسپ ترین لمحات میں سے ایک ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگلے ناک آؤٹ مقابلے میں وہ مونچھوں پر کتنی بار ہاتھ پھیرتے ہیں۔

کامیاب باؤلرز کی فہرست میں ابتدائی تینوں مقامات پر تیز گیندبازوں کا قبضہ ہے جس کے بعد 2 اسپنرز ہیں۔ پہلے کراچی کنگز کے شاہد آفریدی اور پھر ملتان سلطانز کے عمران طاہر۔ ’لالا‘ نے صرف 9 میچز کھیلے ہیں اور 16 کی اوسط سے 13 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا ہے۔ عمران طاہر نے 10 میچوں میں اتنی ہی وکٹیں لی ہیں البتہ ان کا اوسط بھی زیادہ رہا اور فی اوور رنز بھی زیادہ دیے۔

بہترین وکٹ کیپرز

ملتان سلطانز دوسرے مرحلے تک تو نہیں پہنچ پائے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس ٹیم نے آغاز بہترین لیا تھا۔ پی ایس ایل 3 کے نصف مرحلے تک تو اس کے کھلاڑی انفرادی سطح پر چھائے ہوئے تھے۔ سب سے زیادہ رنز کمار سنگاکارا کے تھے، سب سے زیادہ وکٹیں عمران طاہر کی، بلکہ وکٹوں کے پیچھے شکار تو سب سے زیادہ اب بھی سنگا ہی کے ہیں۔ انہوں نے 10 میچوں میں 10 کھلاڑیوں کو اپنا شکار بنایا تھا، جن میں 9 کیچز اور ایک اسٹمپنگ شامل ہے۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے کپتان سرفراز احمد 8 شکاروں کے ساتھ دوسرے جبکہ کراچی کے محمد رضوان 7 شکاروں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔

بہترین فیلڈرز

اگر فیلڈ کیچز کا ذکر کریں تو ملتان سلطانز کے احمد شہزاد سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ احمد شہزاد نے 10 مقابلوں میں کل 7 مرتبہ گیند کو جھپٹا، جن میں چند تو بہت عمدہ کیچز تھے۔ اسلام آباد یونائیٹڈ کے جے پی دومنی نے صرف 9 میچوں میں اتنے ہی کیچز لیے ہیں جبکہ فائنل ابھی باقی ہے۔ ملتان کے کیرون پولارڈ، کوئٹہ کے حسان خان، اسلام آباد کے آصف علی نے سیزن میں 6، 6 کیچز لیے ہیں۔

بہترین شراکت داریاں

اگر شراکت داریوں کی بات کریں تو پی ایس ایل 3 کے اماراتی مرحلے کی بہترین پارٹنرشپ کراچی کے جو ڈینلی اور بابر اعظم نے بنائی۔ ملتان سلطانز کے خلاف مقابلے میں دونوں نے دوسری وکٹ پر 118 رنز کا اضافہ کیا تھا۔

مزید پڑھیے: پاکستان سپر لیگ کے خلاف گھٹیا پروپیگنڈا اور اس کا جواب

مجموعی طور پر سیزن میں 4 ایسی شراکت داریاں قائم ہوئی ہیں جو 100 رنز سے بھی اوپر گئیں۔ جن میں پشاور زلمی کے تمیم اقبال اور کامران اکمل نے لاہور قلندرز کے خلاف ناٹ آؤٹ 104 رنز اسکور کیے۔ اسلام آباد کے جے پی دومنی اور لیوک رونکی نے کراچی کنگز کے خلاف اتنے ہی رنز کی اوپننگ پارٹنرشپ دی جبکہ کراچی کے خرم منظور اور بابر اعظم نے اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف اسی مقابلے میں 101 رنز کی شراکت داری سے آغاز لیا تھا۔ مجموعی طور پر اب تک سیزن میں 90 یا اس سے زیادہ رنز کی کُل 6 شراکت داریاں بن چکی ہیں، جن میں سے 4 پہلی وکٹ پر جبکہ 2 دوسری وکٹ پر بنائی گئیں۔

بہترین کیچز

بیٹنگ دیکھیں یا باؤلنگ، وکٹ کیپنگ دیکھیں یا پھر فیلڈنگ، ہر لحاظ سے پاکستان سپر لیگ کا تیسرا سیزن بہترین رہا ہے۔ بلے بازی میں کامران اکمل، لیوک رونکی، فخر زمان اور شین واٹسن کی چند یادگار اننگز ہیں تو باؤلنگ میں انفرادی سطح پر عمر گل، شاہین آفریدی، عثمان شنواری اور عمید آصف نے حریفوں کی گلیاں اڑا دیں لیکن جو پہلو سب سے حیران کن تھا، وہ تھا کیچز کا۔

پاکستان کرکٹ، جو اپنی بدترین فیلڈنگ کی وجہ سے بدنام ہے، اس کی لیگ میں اتنے شاندار کیچز لیے جائیں گے؟ یہ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ صرف غیر ملکی کھلاڑیوں نے ہی نہیں بلکہ نوجوان پاکستانیوں نے بھی ایسے ایسے کیچز پکڑے جو مدتوں یاد رکھے جائیں گے۔ پھر چاہے بات ہو پشاور کے خلاف جنید خان کے کیچ کی، کوئٹہ کے خلاف شاہد آفریدی کے کیچ کی یا پھر لاہور کے خلاف جو ڈینلی کی۔

فہد کیہر

فہد کیہر کرکٹ کے فین ہیں اور مشہور کرکٹ ویب سائٹ کرک نامہ کے بانی ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر fkehar@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔