نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے قوانین خفیہ رکھنے پر سینیٹرز کو تشویش
اسلام آباد: قومی اسمبلی سے پاس نیشنل کمانڈ اتھارٹی (این سی اے) ایکٹ 2010 کے تحت اسٹرٹیجک اثاثوں کے کمانڈ اینڈ کنٹرول کے قوائد و ضوابط تاحال خفیہ رکھنے پر سینیٹر اراکین میں تشویش کی لہر دوڑ اٹھی ہے۔
دو سال قبل سینیٹ کی دو کمیٹیوں کی جانب سے متعدد بار این سی اے کے قوائد و ضوابط کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی درخواست کی گئی تاہم متعلقہ حکام کی عدم سنجیدگی کے باعث معاملہ تعطل کا شکار رہا۔
یہ پڑھیں: بھارت کی ہتھیاروں کی دوڑ، نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا اظہار تشویش
واضح رہے کہ این سی اے کے تحت پاکستان کی جوہری تنصیبات کے تحفظ کے لیے جامع اور فول پروف سیکیورٹی انتظام کیے جاتے ہیں جس کے اجلاس کی سربراہی وزیراعظم کرتے ہیں۔
8ویں سہ ماہی رپورٹ برائے جنوری تا مارچ کے چیئرمین تاج حیدر کی پیش کردہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمیٹی کے اراکین معاملے پر کس طرح بے بس اور لاچار رہے، سیکریٹری دفاع نے پارلیمنٹ ہاؤس کی بلڈنگ میں موجود ہوتے ہوئے کمیٹی کے آخری اجلاس میں درخواست بھیجی کہ ایجنڈا ملتوی کردیا جائے۔
کمیٹی کے چیئرمین تاج حیدر کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ میں ساری صورتحال کو واضح بیان کی گیا۔
واضح رہے کہ وزارت دفاع کو ’این سی اے ایکٹ 2010 کے تحت قوائد وضوابط اور ریگولیشن‘ سے متعلق سینیٹرز کو بریفنگ دینی تھی اور وزارت دفاع ہی کی جانب سے درخواست پر کمرہ بند اجلاس کی تیار کی گئیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی خواہش جنوبی ایشیاء کا استحکام
رپورٹ کے مطابق وزارت دفاع کی جانب سے سیکریٹری یا کوئی اور عہدیدار نے کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔
کمیٹی کے چیئرمین نے رپورٹ میں کہا کہ سیکریٹری دفاع نے سینیٹ سیکریٹریٹ کے ذریعے درخواست ارسال کی کہ وہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کی میٹنگ میں مصروف ہیں اس لیے ایجنڈے کو ملتوی کردیا جائے۔
رپورٹ کے مطابق کمیٹی چیئرمین نے بریفنگ کے حوالے سے ایڈیشنل سیکریٹری یا جوائنٹ سیکریٹری کا تذکرہ کیا تو سیکریٹری دفاع نے جواب دیا کہ معاملہ بہت احساس نوعیت کا ہے اس لیے وہ خود کمیٹی کو بریفنگ دیں گے تاہم اجلاس میں وزارت دفاع کی جانب سے کوئی شامل نہیں ہوا۔
اس سے قبل بھی سینیٹ کمیٹی برائے دفاع کو این سی اے ایکٹ کے قوانین سے متعلق آگاہی کے بارے میں بے خبر رکھا گیا۔
مزید پڑھیں: 'کم سے کم جوہری صلاحیت' برقرار رکھنے کا فیصلہ
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما فرحت اللہ بابر نے پہلی بار 2016 میں سینیٹ کمیٹی برائے دفاع میں اس مسئلے پر آواز اٹھائی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
فرحت اللہ بابر جب کمیٹی کا حصہ بنے تو انہوں نے این سی اے قوانین سے متعلق بریفنگ کا مطالبہ کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق آخری اجلاس میں فرحت اللہ بابر نے کہا کہ این سی اے ایکٹ قومی اسمبلی سے پاس ہوا اس لیے اس کی ذیلی شقیں بھی پارلیمنٹ میں زیر بحث آنی چایئے، اگر سیکریٹری دفاع مصروف ہیں تو انہیں اپنے سینئر افسر کو ذمہ داری سونپنی چایئے تھی‘۔
رپورٹ میں فرحت اللہ بابر نے اظہار کیا کہ ’خدشہ ہے کہ این سی اے ایکٹ کے قوانین ازخود ایکٹ کے منافی ہوں تاہم اگر ایسا ہے تو ’اسٹریجکٹ اثاثوں کے کمانڈ اینڈ کنٹرول کے لیے خطرناک‘ ہو سکتے ہیں۔
رپورٹ میں فرحت اللہ بابر نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’این سی اے ایکٹ کے بنیادی قوانین میں تضاد ہو سکتا ہے جو خطرے کے علامت ہے‘۔
رپورٹ پر رائے کے حوالے سے فرحت اللہ بابر سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ کمیٹی کی رپورٹ عوامی دستاویز ہے جس پر ان کی جانب سے مزید وضاحت کی گنجائش نہیں کیونکہ سب کچھ تحریر کردیا گیا ہے۔