پاکستان

بلوچستان اسمبلی کا صوبائی نشستوں میں اضافے کا مطالبہ

الیکشن کمیشن کی جانب سے کی گئی نئی حلقہ بندیوں کو تسلیم نہیں کرتے اس لیے وفاقی حکومت نشستوں میں اضافہ کرے، اراکین اسمبلی

بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں اراکین کی جانب سے مشترکہ قرار داد میں وفاقی حکومت سے نئی مردم شماری کے اعدادوشمار کے تحت صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کا مطالبہ کیا گیا۔

بلوچستان اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راحیلہ حمید درانی کی زیر صدارت ہوا جہاں میر عاصم کرد گیلو نے حلقہ بندیوں کے حوالے سے قرارداد پیش کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں حالیہ مردم شماری کے نتیجے میں صوبہ بلوچستان کی آبادی ایک کروڑ بیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے مرتب کردہ نئی حلقہ بندیوں کے مطابق بلوچستان کے لئے قومی اسمبلی میں تین جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔

قرار داد میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ صوبہ بلوچستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور وسیع رقبے کو مد نظر رکھتے ہوئےنئی حلقہ بندیوں پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے جس کے تحت قومی اسمبلی کے لیے ضلع وار اور صوبائی اسمبلی کے لیے مزید 20 نشستوں کا اضافہ کیا جائے۔

عاصم کرد گیلو نے کہا کہ جب بلوچستان اسمبلی وجود میں آئی تو حلقوں کی تعداد 23 تھی جو مختلف ادوار میں مردم شماری کے بعد بڑھ کر 65 ہوگئیں اور اس وقت قومی اسمبلی کی نشستیں ناکافی ہیں اس لیے صوبے کے 32 اضلاع کو قومی اسمبلی کے الگ الگ حلقے بنائے جائیں۔ان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ کی آبادی زیادہ ہے اس لیے کوئٹہ سے قومی اسمبلی کے پانچ حلقے بنائے جائیں۔

انھوں نے کہا کہ بلوچستان سے وزیراعظم کا امیدوار آہی نہیں سکتا نئے حلقہ بندیوں میں پانچ پانچ اضلاع کو ایک حلقے میں شامل کیا گیا ہے جو کہ خیبرپختونخوا کے رقبے کے برابر بنتا ہے جبکہ 70 برس گزرنے کے باوجود بھی صوبے میں پینے کے پانی، بجلی، سڑکوں اور ہسپتال جیسی سہولیات ناپید ہیں کیونکہ یہاں اتنے بڑے حلقے ہیں جہاں ایک سکیم شروع کی جائے تو مکمل ہونے میں 6 سال لگ جاتے ہیں۔

صوبائی وزیر قانون وپارلیمانی امور آغامحمد رضا نے کہا کہ حالیہ مردم شماری کے بعد بنائی جانے والی حلقہ بندیوں سے صوبے میں موجود مختلف قومیتوں کے باہم دست و گریبان ہونے کے خدشات لاحق ہیں جبکہ سیاسی جماعتوں اور عوامی نمائندوں سے کسی قسم کی مشاورت نہیں کی گئی۔

نیشنل پارٹی کے رکن میرخالد لانگو نے کہا کہ بلوچستان پسماندہ صوبہ ہے یہاں نئی حلقہ بندیوں میں بنائے جانے والا ایک حلقہ 70 ہزار اسکوائر کلو میٹر پر محیط ہے جو کہ خیبرپختونخوا کے رقبے سے تھوڑا سا چھوٹا ہے جبکہ قومی اسمبلی کا ایک حلقہ 11 سو کلو میٹر بن رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان ایک حساس صوبہ ہے یہاں پہلے بھی قبائل الیکشن کے معاملے پردست و گریباں ہوچکے ہیں ہم نہیں چاہتے کہ ایک بارپھر ایسی صورت حال پیدا ہو لہٰذا صوبائی اسمبلی کے حلقوں کو پہلے کی طرح رہنے دیا جائے تاہم جہاں آبادی بڑھی ہے ان علاقوں میں قومی اسمبلی کے حلقوں کو بڑھایا جائے۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں کی جانے والی نئی حلقہ بندیوں میں انصاف کے تقاضوں کو مد نظر نہیں رکھا گیا ایک طرف ایک حلقہ دس لاکھ آبادی پر مشتمل ہے تو دوسری جانب قومی اسمبلی کا وہی حلقہ چار لاکھ 35ہزار کی آبادی پر بنادیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کے قوانین کو مد نظر نہیں رکھا جس کی وجہ سے معاملات خراب ہونے کا خدشہ ہے۔

انھوں نے تمام بڑی سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس حوالے سے قانون سازی کریں۔

جمعیت علما اسلام کے مفتی معاذ اللہ نے کہا کہ ہمیں وفاق سے ہمارے حقوق ملنے چاہئیں اب جبکہ موجودہ اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے کے قریب ہے ایسے میں بلوچستان جو رقبے کے لحاظ سے ملک کے نصف کے برابر ہے کو قومی اسمبلی کی صرف دو نشستیں رکھی گئی ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کی کوئی نشست نہیں دی گئی یہ عمل ہمیں پسماندہ رکھنے کے مترادف ہے۔

سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ جہاں بھی عوام کی نمائندگی کم ہو وہاں عوام کی آواز نہیں سنی جاتی ہماری بھی وفاق میں نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں کہیں بھی آبادی گھٹتی نہیں بلکہ بڑھتی ہے مگر وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے حلقے کی آبادی کم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے صوبائی اسمبلی کی نشست ہی ختم ہوگئی۔

ڈاکٹرعبدالمالک نے کہا کہ حقائق کو دیکھنا ہوگا کہ وہاں پر خراب حالات کے باعث مردم شماری مکمل طور پر نہ ہوسکی یہی صورت حال پنجگور کی تھی یقین دہانی کے باوجود پنجگور کی ایک نشست کم کردی گئی دوسری جانب جو حلقہ بندیاں کی گئی ہیں ایک حلقہ لاکھوں نفوس اور ہزاروں کلو میٹر پر مشتمل ہے ہماری آواز یہاں سے کوئی نہیں سنے گا ہمیں فوری طور پر سینیٹ میں اس مسئلے کو اٹھانا ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ سینیٹ میں قرار داد لانی ہوگی ورنہ کچھ نہیں ہوگا، اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر سینیٹ میں مسئلے کو اٹھایا جائے۔

جمعیت علمااسلام کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے نئی حلقہ بندیوں کو سمجھ سے بالا تر قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں بیٹھ کر فیصلہ کرنے والوں نے زمینی حقائق کو نظر انداز کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تاریخی رشتوں کو نظر انداز کردیا گیا ہے اور ہم موجودہ حلقہ بندیوں کو کسی صورت تسلیم نہیں کرتے، حقائق کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کی جائیں۔

نیشنل پارٹی کے رکن رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ وفاق میں بلوچستان کے نمائندوں نے وہ حق ادا نہیں کیا جو انھیں کو کرنا چاہیے تھا۔

انھوں نے بلوچستان اسمبلی سے متعلق عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے بیان کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی۔