پاکستان

پشاور:پی ٹی ایم کا رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر پر احتجاج

بلوچستان حکومت پی ٹی ایم کے رہنماؤں کے خلاف ایف آر واپس لے، مظاہرین کا مطالبہ

پشاور میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے حامیوں نے بلوچستان میں رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔

پی ٹی ایم خیبرپختونخوا(کے پی) سے تعلق رکھنے والے مظاہرین نے وفاقی حکومت اور بلوچستان کی صوبائی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی اور مطالبہ کیا کہ موومنٹ کے رہنماؤں کے خلاف درج ایف آئی آر واپس لے لی جائے۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ 'وہ اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کر رہے تھے' لیکن بلوچستان حکومت کی جانب سے ان کے مطالبات کی بجا آوری کی یقین دہانی کے بجائے پی ٹیم ایم کے رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر درج کرادی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پرامن مظاہرین' کے خلاف کارروائی کا مقصد 'ناانصافی اور برادری کے بنیادی حقوق کے لیے اٹھنے والی پشتون آوازوں کو دبانا تھا'۔

یہ بھی پڑھیں:بلوچستان: پختون حقوق کیلئے احتجاج کرنے والے رہنماؤں کے خلاف مقدمہ

پی ٹی ایم کے کارکنوں نے کہا کہ 'ہم اس طرح کے ہھتکنڈوں سے خوفزدہ نہیں ہوں گے' اور پی ٹی ایم کے جھنڈے تلے احتجاج جاری رکھیں گے۔

یاد رہے کہ بلوچستان میں گزشتہ ہفتے قلعہ سیف اللہ میں ملک میں مختلف قومیتوں کو برابری کے حقوق کے لیے مطالبہ اور احتجاج کرنے والے پختون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج کرادیا گیا تھا۔

قلعہ سیف اللہ کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کی جانب سے پی ٹی ایم کے رہنماؤں منظور پشتین، حاجی ہدایت اللہ، علی وزیر، حاجی ہدایت اللہ، خان زمان کاکڑ اور بلوچستان کے سابق وزیر اور رکن قومی اسمبلی نواب ایاز خان جوگیزئی سمیت دیگر کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کردی گئی تھی۔

پی ٹی ایم کی جانب سے مبینہ طور پر جبری گمشدگی، غیر قانونی گرفتاریوں اور قتل کے علاوہ پختون برادری کو مرکزی حیثیت دینے کے لیے ژوب اور قلعہ سیف اللہ سمیت بلوچستان کے مختلف شہروں میں احتجاج کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ یہ معاملہ اس وقت نمایاں ہوا تھا جب وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے نیویارک ٹائمز میں شائع مضمون میں کہا تھا کہ نقیب اللہ محسود کا قتل پختون نوجوانوں کو علاقے میں جاری دہشت گردی کے باعث 16 سال سے جاری تناؤ اور احتجاج کے متحد ہونے کا مرکزی نقطہ تھا۔

مضمون میں کہا گیا تھا کہ خیبر پختونخو (کے پی) اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) میں دہشت گردی کے خلاف آپریشنز کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، کئی افراد حراست میں لینے کے علاوہ کئی افراد کو ماورائے قانون قتل کیا گیا اور جبری گم شدگیوں کے کیسز بھی سامنے آئے۔

خیال رہے کہ فاٹا بالخصوص جنوبی وزیرستان میں متاثر ہونے والے افراد کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم پی ٹی ایم کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران فاٹا سے 32 ہزار پختون لاپتہ ہوگئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کی جدجہد کا مقصد لاپتہ افراد کو آئین کے تحت عدالتوں کے سامنے پیش کرنے کو یقینی بنانا ہے۔