سائنس و ٹیکنالوجی

فیس بک پر بچوں کی فحش ویڈیوز پھیلانے کا الزام

معاملہ سامنے آنے کے بعد سوشل ویب سائٹ انتظامیہ نے معذرت کرلی۔

ایک بار پھر فیس بک کے حوالے سے متنازع خبر سامنے آئی ہے، جس کے مطابق سوشل ویب سائٹ پر کم عمر لڑکیوں اور بچوں کی فحش ویڈیوز پھیل رہی ہیں۔

ٹوئٹر صارف جوناہ بینیٹ کی جانب سے 16 مارچ کو ٹوئیٹ کی گئی کہ فیس بک سرچ میں جیسے ہی ویڈیوز آف (video of) لکھا جاتا ہے تو سرچ بار خود ہی کم عمر لڑکیوں اور بچوں کی فحش ویڈیوز کا آپشن سب سے اوپر دیتا ہے۔

جوناہ بینیٹ نے مشورہ دیا کہ اس عمل کو خود آزما کر دیکھیں اور سرچ بار میں صرف ویڈیوز آف (video of) لکھ کر دیکھیں، جس کے بعد سب پر حقیقت عیاں ہوجائے گی۔

ان کی اسی ٹوئیٹ کے بعد کئی صارفین نے فیس بک کی سرچ بار کو آزمانے کے لیے یہ عمل دہرایا تو وہ دنگ رہ گئے۔

بعد ازاں اسی معاملے پر امریکی و برطانوی نشریاتی اداروں نے تنقیدی تجزیے بھی شائع کیے، جن میں فیس بک کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔

ٹیکنالوجی نشریاتی ادارے ’دی ورج‘ کے مطابق فیس بک کی جانب سے سرچ بار میں صارف کو ویڈیوز آف (video of) لکھے جانے کے بعد ’ویڈیوز فار سیکسوئلز‘(video of sexuals) اور ’ویڈیو آف لٹل گرل گونگ اورل‘ (video of little girl giving oral) سمیت ایسے ہی دیگر نازیبا اور فحش آپشن سب سے پہلے دیے گیے۔

شدید تنقید کے بعد فیس بک نے اپنے عمل پر معذرت کرتے ہوئے وضاحتی بیان بھی جاری کیا۔

فیس بک کی معذرت

برطانوی اخبار ’دی گارجین‘ کے مطابق فیس بک نے سرچ بار میں بچوں کی نازیبا ویڈیوز کا آپشن آنے کے بعد صارفین سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اب ایسے آپشنز کو ختم کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: فیس بک کی جانب سے پورنوگرافی سے متعلق متنازع سروے

فیس بک کا وضاحتی بیان میں کہنا تھا کہ وہ اپنی ویب سائٹ پر فحش یا نازیبا مواد کی تشہیر یا سرچ کی اجازت نہیں دیتے، تاہم یہ صارف پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس طرح کا مواد دیکھنا پسند کرتا ہے۔

فیس بک کے مطابق سرچ انجن صارف کو سب سے اوپر وہی آپشن دیتی ہے، جس متعلق صارف سب سے زیادہ مواد دیکھنا پسند کرتا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ تحقیق کرنے کے بعد ایسے آپشنز کو سرچ انجن سے ہٹادیا گیا اور ادارہ ایسے عمل پر معذرت خواہ ہے۔

اطلاعات کے مطابق فیس بک کی جانب سے سرچ بار میں ایسا مواد صرف برطانیہ میں دیا گیا، جو کئی گھنٹے تک دستیاب رہا اور لوگ آزمائش کی خاطر تجربات کرتے رہے۔

ایسی رپورٹس سامنے نہیں آئیں کہ آیا لوگوں نے ایسا مواد دیکھا بھی یا نہیں۔

خیال رہے کہ رواں ماہ 6 مارچ کو بھی فیس بک پر الزام لگا تھا کہ اس نے برطانیہ کے مخصوص افراد سے بچوں کی پورنوگرافی سے متعلق سروے کیا تھا۔

فیس بک پر الزام تھا کہ اس نے اپنے متنازع سروے میں مخصوص لوگوں سے دنیا کے کئی ممالک میں جرائم کے زمرے میں آنے والے سوالات کیے تھے۔

مزید پڑھیں: فحش ویڈیوز ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیے جانے کا انکشاف

سروے میں محدود صارفین سے ویب سائٹ پر فحش یا ممنوع مواد کی تشہیر سے متعلق سوالات پوچھے گئے تھے۔

ایک سوال میں صارفین سے پوچھا گیا تھا کہ اگر کوئی مرد کسی 14 سالہ لڑکی سے پرائیویٹ میسیج میں اس کی برہنہ تصویر کا مطالبہ کرتا ہے تو اس معاملے کو فیس بک پر کس طرح استعمال کیا جائے؟

اس سوال کا جواب دینے کے لیے صارفین کو چار آپشن دیے گئے تھے، جس میں پہلا آپشن اس مواد کو فیس بک پر استعمال کرنے کی اجازت دینے سے متعلق تھا۔

دوسرا آپشن بھی اسے فیس بک پر استعمال کی اجازت سے متعلق تھا، تاہم ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ اسے صارف دیکھنا پسند نہیں کرے گا۔

تیسرے آپشن میں ایسے مواد کو فیس بک پر استعمال نہ کرنے کی اجازت نہ دینے سے متعلق تھا، جب کہ چوتھے آپشن میں اس معاملے پر صارف کی کوئی رائے نہ رکھنے کا کہا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نازیبا ویڈیوز کیلئے فیس بک کی پالیسی کیا؟

اسی طرح صارفین سے بچوں کو دودھ پلانے والی تصاویر کو فیس بک پر شیئر کرنے سے متعلق بھی پوچھا گیا تھا۔

ایسے سروے سامنے آنے کے بعد لوگوں نے فیس بک کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے بعد دنیا کی سب سے بڑی سوشل ویب سائٹ نے سروے پر معذرت کی تھی۔

فیس بک نے صارفین سے معذرت کرتے ہوئے اس سروے کو اپنی غلطی قرار دیا تھا۔