انسان کی ذات ایک متجسس ذات ہے اور اس کے تجسس کو جو چیز سب سے زیادہ ابھارتی ہے وہ بیماریاں ہیں۔ آخر یہ کیسے ہوتا ہے کہ اچانک کسی ان دیکھی چیز کی وجہ سے اس کی ذہنی و جسمانی صلاحیت و استعداد متاثر ہوجائے؟
چوں کہ انسان کسی بھی چیز کی وجہ تلاش کیے بغیر نہیں رہ سکتا، اسی لیے زمانہءِ قبل از تاریخ سے لے کر اب تک بیماریوں کی مختلف وجوہات پیش کی جاتی رہی ہیں۔ کبھی انہیں خدا کا عذاب قرار دیا گیا، کبھی دیوتاؤں کی ناراضگی، کبھی مادوں کا عدم توازن اور اب جدید میڈیکل سائنس کے دور میں اس کی وجوہات خوراک سے لے کر جرثوموں تک بہت ساری ہوسکتی ہیں۔
کینسر بھی ایسی ہی ایک بیماری ہے جس نے ہمیشہ سے انسان کو تجسس میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یہ اس لیے بھی زیادہ پریشان کن اور حیرت انگیز بیماری ہے کیوں کہ دیگر بیماریوں کے برعکس اس کا علاج سب سے زیادہ دیر سے دریافت ہوا اور آج بھی اس کے کسی علاج کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ علاج اتنے عرصے میں فلاں اسٹیج کے کینسر کو یقینی طور پر ختم کردے گا۔
مگر کسی بھی مرض کے علاج کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اس مرض کے مزاج کو، اس کی وجوہات کو اور اس مرض کی طاقت اور کمزوری کو سمجھا جائے، ورنہ علاج کارگر ہونے کے بجائے مریض کو موت کے منہ میں بھی دھکیل سکتا ہے۔
سدھارتھ مکھرجی کی کتاب 'دی ایمپرر آف آل میلاڈیز: اے بائیوگرافی آف کینسر' بھی ہماری اس مرض کے بارے میں سمجھ کو بڑھانے کی ایک کاوش ہے۔ سدھارتھ مکھرجی ایک امریکی-ہندوستانی ماہرِ کینسر ہیں جو امریکا کی مشہور و معروف میڈیکل یونیورسٹیز اور اداروں سے پہلے بحیثیتِ طالبعلم اور پھر بحیثیتِ ماہر منسلک رہے ہیں۔
2010ء میں لکھی گئی اس کتاب کا آغاز ڈاکٹر مکھرجی کارلا ریڈ نامی ایک مریضہ کی کہانی سے کرتے ہیں جو 2004ء میں ان کے پاس سر درد، جسم پر عجیب و غریب نشانات اور مسوڑوں کے سفید ہونے سمیت مختلف علامات کی شکایت لے کر آئی تھیں۔ انہیں لیوکیمیا یعنی خون کے کینسر کی وہ قسم جس میں سفید خلیے معمول سے زیادہ بننے لگتے ہیں، کی تشخیص کی گئی۔ ڈاکٹر مکھرجی اپنی اس مریضہ کی کہانی کو بنیاد بنا کر ہمیں صدیوں کے سفر پر لے جاتے ہیں جب ہمیں تاریخ میں پہلی بار کینسر کے بارے میں تحریری ریکارڈ اس زمانے کے ایک مصری طبیب کی تحریر سے ملتا ہے۔