پاکستان

سفارتکاروں اور اہلخانہ کو ہراساں کرنے کے واقعات: نئی دہلی سے ہائی کمشنر مشاورت کےلیے طلب

بھارت میں سفارتی عملے کو ہراساں کرنے پر پاکستانی ہائی کمشنر کو اسلام آباد بلالیا ہے، ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل
|

اسلام آباد: ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا ہے کہ بھارت میں پاکستانی سفارتکاروں، سفارتی عملے اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں کئے جانے پرنئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر سہیل محمود کو مشاورت کے لیے اسلام آباد بلا لیا ہے۔

ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا تھا کہ اپنے سفیروں کا تحفظ ہمارے لئے اہم ہے جس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے،پاکستان میں بھارتی سفارتکاروں کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا اگر کوئی ایسا واقعہ ہوا ہے تو بھارتی ہائی کمیشن نے ہمیں آگاہ نہیں کیا۔

ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا تھا کہ نئی دہلی میں پاکستانی سفارتکاروں، سفارتی عملہ اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں کرنے کا معاملہ اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں جگہ اٹھایا ہے تاہم بھارت نے سفارتکاروں کے تحفظ کیلئے کوئی اقدامات نہیں کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ سفارت کاروں کی حفاظت میزبان حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن بھارتی حکومت اس ذمہ داری کو ادا کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔

مزید پڑھیں: نئی دہلی: سفارتی عملے کو ہراساں کرنے پر پاکستان کا بھارت سے احتجاج

انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کو طلب کرکے معاملہ پر احتجاج بھی کیا اور ہائی کمشنر کی جانب سے ہراساں کرنے کے شواہد بھی فراہم کردیے گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارے ہائی کمشنر نے بھارتی وزارت امور خارجہ سے سفارتی عملے کو ہراساں کرنے والے افراد کی نشاندہی کے لیے تصاویر کا بھی تبادلہ کیا لیکن بھارت کی جانب سے ابھی تک کوئی مثبت جواب نہیں دیکھنے میں آیا۔

ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا کہ ویانہ کنونشن کے تحت پاکستانی سفیروں اور ان کے اہل خانہ کی سیکیورٹی اور حفاظت بھارتی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

خیال رہے کہ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں 7 اور 8 مارچ کو پاکستانی سفارتی اہلکاروں کے بچوں کی گاڑیوں کو روکا تھا اور اسکول جاتے وقت ان کی ویڈیو بنائی تھی اور انہیں ہراساں کیا تھا۔

بعد ازاں نیول ایڈوائزر کا پیچھا کیا گیا تھا اور 9 مارچ کو پولیٹیکل قونصلر کو ٹیکسی کار سے اتار کر ہراساں کیا گیا اور ویڈیو بنائی گئی تھی۔

اس کے بعد ایک اور واقعہ میں سفارتی اہلکاروں کے بچوں کو ہراساں کیا گیا اور گاڑی کو 40 منٹ تک روکے رکھا، جس کے بعد پاکستانی ہائی کمیشن کے ڈرائیورز کو حبس بے جا میں رکھا تھا اور ان کا فون بھی قبضے میں لے لیا تھا۔

12 مارچ کو نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن میں کام کرنے والے ٹیکنیشن کو دھمکایا گیا تھا اور انھیں کام سے روکا گیا تھا اور اسی روز شام کے وقت فرسٹ سیکریٹری کا دفتر سے رہائش کی جانب واپسی کے دوران خطرناک طریقے سے پیچھا کیا گیا تھا۔

’مقبوضہ کشمیر میں شہریوں کا قتل عام بند کیا جائے‘

کشمیر کے معاملے پر بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں کمشیریوں پر فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے اور ایک ہفتے کے دوران 2 انجینئرز سمیت 5 کشمیری جاں بحق ہوگئے۔

ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے کشمیر میں حریت رہنما سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، یاسین ملک اور دیگر رہناؤں کی غیر قانونی نظر پندی کی مذمت کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کے مبصرین کی موجودگی میں بھارت کی بلا اشتعال فائرنگ، 2 افراد زخمی

انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملے کو پاکستان نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کے 37 ویں اجلاس میں اٹھایا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں شہریوں کا قتل عام بند کرے۔

بریفنگ کے دوران ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا تھا کہ بھارت ہمیں اپنی اندرونی سیاست میں ملوث اور استعمال نہیں کرے اور اپنی مقامی سیاسی اپنے ملک تک ہی محدود رکھے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی سیاست اور انتخابات میں بھارت کا کوئی ذکر نہیں ہوتا لہٰذا بھارت کی سیاسی جماعتیں بھی اس معاملے میں پاکستان کی پیروی کریں۔

’افغان طالبان پر ہمارا زیادہ اثر و رسوخ نہیں‘

ہفتہ وار بریفنگ کے دوران افغانستان کے معاملے پر ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغان طالبان پر ہمارا زیادہ اثر و رسوخ نہیں ہے لیکن ہم امریکا کی جانب سے ملا فضل اللہ اور کمانڈر ولی کے سر کی قیمت مقرر کرنے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ مجرم آرمی پبلک اسکول ( اے پی ایس) پر حملے میں ملوث تھے اور پاکستان کو یہ شخصیات مطلوب ہیں تاہم ان کی گرفت کے لیے امریکا کو مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔