جوتا چھپائی سے برسائی تک
سیاسی و معروف شخصیات پر جوتا پھینکنے کا طریقہ یا رسم دراصل عوامی ردعمل یا غصے کے اظہار کو مانا جاتا ہے، تاہم نہ تو اس کو درست قرار دیا جاسکتا ہے، نہ ہی اس کی ہمت افزائی کی جاسکتی ہے، اس طریقے سے غصہ کے اظہار کا سامنا دنیا بھر میں کئی شخصیات کو کرنا پڑا ہے۔
حالیہ برسوں میں جوتا برسانے کی رسم کا سہرا پاکستان کے صوبہ سندھ کے آغا جاوید پٹھان کو حاصل ہے، جنہوں نے اپریل 2008 میں ارباب غلام رحیم کے منہ پر جوتا مارا۔
اس واقعے نے اتنی مقبولیت حاصل کی کہ جلد ہی یہ رسم بیرونی دنیا میں بھی متعارف ہوگئی اور عراق کے ایک صحافی منتظر الزیدی نے 14 دسمبر 2008 کو بغداد میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس کے دوران اس وقت کے امریکی صدر بش کو جوتے سے نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی۔
امریکی صدر البتہ انتہائی تربیت یافتہ نکلے اور انتہائی سرعت سے جوتے کو جل دینے میں کامیاب ہوئے ۔
دوسری بار بھی یہ اعزاز امریکی صدر جارج بش کو حاصل ہوا، جب جنگ مخالف تنظیم کوڈ پنک کی جانب سے 17 دسمبر 2008 میں حاصل ہوا اور وہ بھی عین وائٹ ہائوس کے سامنے ، جب ان کے پتلے پر جوتے برسائے گئے۔
یہ سلسلہ چلا تو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، 2 فروری 2009 کو چین کے اس وقت کے وزیراعظم وین جیابائو کو برطانیہ میں خفت کا سامنا کرنا پڑا، جب دنیا کی بہترین قرار دی جانے والی درسگاہ کیمبرج یونیورسٹی میں خطاب کے دوران شرکاء میں موجود ایک نوجوان نے انہیں ڈکٹیٹر قرار دیتے ہوئے جوتا مارا، بعد میں معلوم ہوا کہ یہ نوجوان جرمنی سے تعلق رکھا تھا۔
4 فروری 2009 کو سویڈن میں اسرائیلی سفارت کار غزہ کی جنگ کے حوالے سے لیکچر دے رہے تھے جب انھیں غاصب اور قاتل قرار دیتے ہوئے جوتا بازی کا نشانہ بنایا گیا۔
سابق ایرانی صدر احمد نژاد کو کئی بار جوتوں کا سامنا کرنا پڑا، ارومیہ شہر کے دورے کے دوران ایک شخص کو گاڑی کی ٹکر لگنے کے باوجود نہ رکنے پر ناراض مظاہرین نے ان کی جانب جوتا اچھالا، جب کہ دوسری بار امیر کبیر یونیورسٹی میں ایرانی صدر کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔
اسی طرح 12 دسمبر 2011 کو ایرانی صدر احمدی نژاد پر تیسری بار جوتا پھینکا گیا جو ایک نوجوان نے بے روز گاری کے خلاف اقدامات نہ کرنے پر احتجاج کرتے ہوئے پھینکا۔