کہانی بھگت کنور رام اور رُک اسٹیشن کی
بھگت کنور رام تقسیم سے قبل سندھ کی ایک ایسی ہستی تھے جنہوں نے سماج سیوا میں کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا اور نہ ہی ہندو مسلم کی تفریق رکھی۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ایک ایسے عظیم موسیقار اور گلوکار بھی تھے جن کا کلام سننے کے لیے لوگ جوق در جوق پہنچتے تھے اور ہزاروں روپے ان پر نچھاور کرتے تھے لیکن محفل کے اختتام کے بعد وہ یہ تمام رقم ہندو اور مسلمان ضرورت مندوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے۔
انہیں 1939ء میں ایک مسلمان مذہبی پیشوا کے پیروکاروں نے قتل کردیا تھا۔ سینیئر صحافی، ادیب، محقق اور دانشور شیخ عزیز کے مطابق جس وقت قاتل انہیں قتل کرنے وہاں پہنچے تو ان کے کسی چاہنے والوں نے سنتروں کا ایک ٹوکرہ انہیں تحفے میں دیا تھا۔ انہوں نے خوشدلی سے ان کا استقبال کیا اور انہیں سنترے اپنے ہاتھوں سے چھیل کر کھانے کے لیے دیے۔
تیرتھ وسنت 1940ء میں اپنے مطبوعہ ایک مضمون میں رقم طراز ہیں کہ:
کنور غریب محنت کش کے بیٹے تھے۔ لیکن خدا نے انہیں بہت نوازا تھا۔ بھگتی سے لاکھوں کمائے، لیکن پیتل کا ایک سکہ بھی اپنے آپ پر خرچ نہ کیا۔ پرچون کا روزگار کرتے تھے۔ چُلو بھر خون دے کر چُلو بھر چاول لیتے تھے، لیکن حرام کا پیسہ غریبوں میں بانٹنا مہاپاپ سمجھتے تھے۔ بھگت اگر اپنی کمائی اپنے آپ پر خرچ کرتے تو کیا حرج تھا، لیکن وہ سرمایہ امانت سمجھ کر غریبوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے۔
کنویں کھدوانا، غریب لڑکیوں کی شادیاں کروانا، نابینا افراد اور جسمانی معذوروں کی فلاح و بہبود کا بندوبست کرنا، گئو شالا کے لیے چندہ دینا اپنا فرض گردانتے تھے۔ کئی ہندو اور مسلمان خاندان ان کے دان پر گزارہ کرتے تھے۔ مسلمانوں سے اتنی محبت تھی کہ بڑے بڑے وڈیرے سردار گھریلو اختلافات سُلجھانے ان کے پاس آتے تھے۔ ہندو مسلم اتحاد کے مجسم علم بردار ہونے کے سبب گورنر نے 1937ء میں انہیں شال اوڑھائی تھی۔
وہ غریب مسلمانوں کے قرض ادا کرتے اور عدالتوں سے ان کے مقدمات خارج کرواتے تھے۔ کہتے تھے کہ بیچارے زمینداروں کی بھٹیوں اور سود خوروں کے سود میں پِس رہے ہیں۔ ان کا وڈیروں اور سیٹھوں سے محبت کا رشتہ تھا، لیکن سرمایہ داری اور زمیں داری کی اجارہ داری کے حامی نہیں تھے۔
انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ دولت مندوں کے دماغ میں حضرت فلوس اور آنتوں میں ابلیس کا ڈیرہ ہے لیکن اِن لوگوں کا طرزِ علاج قدیم اور بے اثر تھا۔ بھگتی میں بھوکے مانگتے ہیں۔ سود خوروں کو کہتے تھے کہ ’سود خور ایسے ڈربے کی مانند ہیں جس کے آس پاس کا برساتی پانی اس میں آکر جمع ہوتا ہے اور دان کرنا ایک پرنالہ کی مانند ہے، جس سے اگر پانی نہ بہے تو ڈربہ خود بخود ڈھے جائے گا۔‘
پڑھیے، شکارپور کی معروف شخصیت اُدھو داس کی گردن زنی
سندھ کے معروف مؤرخ اور دانشور لوک رام ڈوڈیجا اپنے ایک مضمون ’سندھی ثقافت کا ایک مجسم روپ‘ میں بھگت کنور رام کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ:
ان کے بارے میں کیا لکھیں اور کیا نہ لکھیں، وہ سندھی ثقافت کا ایک عملی نمونہ تھے۔ بھگت راہ چلتے جب خدا کے نام پر جھولی پھیلاتے تھے تو ہزاروں روپے جمع ہوجاتے تھے۔ یہ رقم وہ موقع پر ہی فقیروں، مسکینوں، محتاجوں اور عورتوں میں تقسیم کردیتے تھے۔ کوئی بھی سوالی ان کے در سے خالی نہ جاتا تھا۔ ایک بار جب وہ ساری رقم تقسیم کرچکے تو ایک سوالی کپڑوں کے جوڑے کا سوال کر بیٹھا تو انہوں نے دھوتی باندھ کر اپنے کپڑے اتار کر اسے دے دیے۔ تب میں نے کہا ’بھگت صاحب، یہ تو گھاٹے کا سودا ہے‘ جواباً وہ بولے ’دوست، میں اب بھی گھاٹے میں نہیں، جہان میں برہنہ آیا تھا، ابھی تو دھوتی ہے۔‘ ایسے تارک دنیا مہاتما کو میرا بار بار پرنام!
بھگت کنور رام کے حوالے سے دیوان سنگھ مفتون اپنی سوانح حیات کے دوسرے حصے ’سیف و قلم‘ کے صفحہ نمبر 153 سے 155 تک رقم طراز ہیں کہ:
مہاتما گاندھی کا جب قتل ہوا، تو برطانیہ کی مشہور اور قابلِ احترام شخصیت مسٹر برنارڈشا نے اس خبر کو سنتے ہی کہا تھا:
’زیادہ نیک ہونا بھی جُرم ہے۔‘
یعنی مہاتما گاندھی ایک فرقہ پرست اور متعصب شخص کے ہاتھوں قتل نہ ہوتے، اگر آپ کا دل اور دماغ فرقہ پرستی کے جراثیم سے قطعی پاک نہ ہوتا اور آپ ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک نظر سے نہ دیکھتے۔ زیادہ نیک ہونے کے جرم کے سلسلے میں واقعات سنیے:
میں جس زمانے میں میڈیکل پریکٹس کرتا تھا اور آنکھوں کے آپریشن کرنے کے سلسلے میں سندھ کے ایک مقام پر میرپور ماتھیلو (ضلع سکھر) میں مقیم تھا، تو ایک روز اس قصبے میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی اور ہر شخص کی زبان پر بھائی کنور کا نام تھا اور ہر کوئی منتظر تھا کہ رات کو بھائی کنور رام کا رقص اور گانا ہوگا۔ اس وقت تک مجھے کچھ معلوم نہ تھا کہ بھائی کنور کون ہے۔ رات کو 10 بجے کے قریب قصبے کے لوگوں نے اس جگہ پر جانا شروع کیا جہاں بھائی کنور گانے والے تھے۔ ان لوگوں کے ساتھ ساتھ میں بھی بھائی کنور کا گانا سننے چلا گیا۔
بھائی کنور ایک درویش صفت صوفی تھے۔ آپ سندھ کے دیہات، قصبوں اور شہروں کا دورہ کرتے۔ آپ کے ساتھ سو ڈیڑھ سو کے قریب آپ کے مداح اور معترف ہوا کرتے۔ ہر مقام پر دو تین روز قیام کرتے اور پھر اگلے قصبے، شہر یا گاؤں چلے جاتے۔ ہر مقام کے لوگ آپ کو پہلے گاؤں قصبہ یا شہر سے لینے آتے اور بعد میں دوسرے مقام پر چھوڑ آتے۔ آپ جتنے روز قیام کرتے، ہزار ہا لوگ ایک ہی لنگر میں کھانا کھاتے اور ہر روز رات کے وقت آپ کا رقص اور گانا ہوتا۔
میں جب بھائی کنور (جن کو اکثر لوگ بھگت کنور بھی کہتے تھے) کی مجلس والی جگہ پہنچا تو میں نے دیکھا کہ وہاں ہزار ہا ہندو اور مسلمان جمع ہیں۔ گیس کی روشنی کے ہنڈے جل رہے ہیں۔ بھائی کنور کے پاؤں میں گھنگھرو بندھے ہیں اور آپ کھڑے ہوکر سازوں کے ساتھ رقص کررہے ہیں۔ اس رقص کے ساتھ گرونانک، کبیر، خواجہ فرید، سورداس، تلسی داس اور سندھ کے مسلمان صوفیوں کا کلام گایا جا رہا ہے۔
میرا خیال ہے کہ بھائی کنور موسیقی کے فن سے تو زیادہ واقف نہ تھے مگر آپ کے گلے میں اس قدر اثر تھا کہ وہاں ہر شخص جھوم رہا تھا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ آپ دنیا کے لالچ سے قطعی بلند رہتے ہوئے صرف بطور ایک مشنری کے صوفی ازم کی تبلیغ کے لیے ایسی محفلیں منعقد کرتے اور جب آپ رقص کرتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ میرا بائی پریم کے رنگ میں رنگی ہوئی سری کرشن کے سامنے رقص کر رہی ہے۔
مزید پڑھیے: مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
بھائی کنور کی یہ محفل رات کو نو دس بجے سے شروع ہوکر سورج کے طلوع ہونے تک جاری رہتی اور وہاں ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو اس محفل کو چھوڑ سکا ہو یا جس نے چند منٹ کے لیے بھی اس محفل سے جانا گوارا کیا ہو۔ چناں چہ راقم الحروف بھی صبح تک بھائی کنور کا گانا سننے اور رقص سے لطف اندوز ہونے کے لیے وہاں موجود رہے، حالاں کہ مجھے کسی مذہب سے کوئی دلچسپی نہیں اور تصوف کو بھی میں ایک مذہب ہی سمجھتا ہوں۔
بھائی کنور کے میرپور ماتھیلو کے اس گانے اور رقص کے بعد ان کی کوشش مجھے روہڑی اور ڈہرکی بھی لے گئی جہاں ان کی محفل منعقد ہوئی اور میں آپ کے گانے اور رقص کو اب تک نہیں بھول سکا اور یہ واقعہ ہے کہ اگر کبھی ریڈیو سے بھائی کنور کے گانے کا رکارڈ سن لیتا ہوں تو اپنے جسم میں لطف کی ایک کرنٹ سی محسوس کرتا ہوں۔
بھائی کنور کے متعلق واقعہ بہت دلچسپ ہے۔ آپ عام طور پر ہندؤوں کے مندروں اور مسلمان فقراء کی درگاہوں کے سامنے اپنے رقص کی محفلیں منعقد کرتے کیوں کہ ہندو اور مسلمان صوفیوں سے آپ کو ایک قسم کا عشق تھا۔
آپ ایک بار امرتسر گئے تو آپ نے چاہا کہ آپ وہاں دربار صاحب میں بھی رقص کریں اور گرو صاحبان کا کلام گائیں مگر گرودوارے کے منظم اکالیوں نے آپ کو اس کی اجازت نہ دی۔ اس انکار سے آپ بہت مایوس اور بددل ہوئے تو آپ نے دربار صاحب کے بالکل قریب گھنٹہ گھر کے پاس ہی اپنا رقص شروع کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں ہزار ہا لوگ آپ کا کیرتن یعنی گانا سننے اور رقص دیکھنے جمع ہوگئے اور آپ کی بلند اور پرکشش آواز دربار صاحب تک پہنچتی رہی۔
بھائی کنور زندگی بھر اسی طرح دیہات، قصبات اور شہروں میں دورہ کرتے رہے۔ جب بھی سفر کرتے، آپ کے ہمراہ معتقدین کا ایک قافلہ ہوتا۔ پبلک کے دلوں میں آپ کے لیے عزت و احترام کے جذبات کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ ریلوے کے ملازموں کی خواہش ہوتی کہ قافلے کے لوگ ریلوے کا ٹکٹ نہ خریدیں۔ کیوں کہ وہ اپنی ذاتی غرض کے لیے سفر نہ کرتے اور یہ دورہ صرف پبلک مفاد کے لیے ہوتا۔ مگر بھائی کنور کسی شخص کو بھی بغیر ٹکٹ کے سفر کرنے کی اجازت نہ دیتے۔
بھائی کنور زندگی بھر اپنے مشن میں مصروف رہے اور آخر آپ ایک روز ریلوے اسٹیشن سکھر پر قتل کر دیے گئے جس طرح گاڈسے نے مہاتما گاندھی کو قتل کیا تھا کیوں کہ بقول مسٹر برنارڈشا دنیا میں زیادہ نیک ہونا بھی ایک جرم ہے۔
سندھ کے معروف ادیب علی احمد بروہی نے کنور رام کے متعلق ایک جگہ لکھا ہے کہ:
کنور رام نے زندگی کا آخری راگ مانجھند میں گایا۔ مانجھند شہر میں گا کر ریل میں بیٹھ کر دادو میں اترے اور وہاں سے دوسری گاڑی میں سکھر جانے کے لیے رُک اسٹیشن پر پہنچے تو گاڑی کے چلنے کے بعد ان کو پیر صاحب بھرچونڈی کے مرید اور ظالم شخص جانو جلبانی اور اس کے ساتھی مراد سہریانی نے بندوق سے حملہ کرکے زخمی کردیا۔ گاڑی میں علاج نہ ہونے کے سبب باگڑجی اسٹیشن تک خون زیادہ بہہ جانے کے سبب کنور رام دیہانت کرگئے۔ سکھر، روہڑی اور دیگر شہروں میں ہندو خواہ مسلمان اس افسوس ناک حادثے پر غم میں مبتلا ہوکر مشتعل ہوگئے۔ یہ واقعہ یکم نومبر 1939ء کے دن وقوع پذیر ہوا اور اُن کی آخری رسومات 2 نومبر کو ادا کی گئیں۔ اُن کی آخری آرام گاہ رھڑکی ضلع گھوٹکی میں سنت سترام داس کے چرنوں میں موجود ہے۔
پڑھیے: اچھڑو تھر میں اپنی شناخت کا متلاشی ہندو قبیلہ
رُک اسٹیشن جہاں کنور بھگت رام کو قتل کیا گیا اُس کی کہانی بھی ایک عجیب و غریب داستان ہے۔ انگریزوں نے یہ اسٹیشن کیوں اور کب قائم کیا تھا یہ کہانی بہت ہی دلچسپ ہے۔ اس کہانی کو بیان کرنے سے قبل ہم چاہیں گے کہ رُک اسٹیشن کے قیام کا سبب جو بھی تھا اس سے آپ کو آگاہ کیا جائے۔ اس حوالے سے معروف صحافی رضا علی عابدی اپنی کتاب ریل کہانی میں رُک اسٹیشن کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ:
’رُک: جہاں کوئی نہیں رُکتا‘
’سکھر سے یہی کوئی 24، 25 کلومیٹر دور ایک چھوٹا سا گمنام اسٹیشن ہے: رُک۔ اگر انگریزوں کا خواب پورا ہوجاتا اور قدرت کو منظور ہوتا تو اس جگہ ایشیاء کا ایک عظیم الشان اسٹیشن ہوتا: رُک جنکشن۔ پورے برِصغیر کے مسافر یہاں آیا کرتے اور ریل گاڑیوں میں بیٹھ کر سندھ کے اس اسٹیشن سے قندھار، کابل، وسطی ایشیاء اور یورپ جایا کرتے۔ مگر یہ خواب ادھورا ہی رہا۔ رُک جنکشن سُکڑ کر چھوٹا سا بھولا بسرا اسٹیشن رہ گیا۔ اب وہاں سست رفتار مسافر گاڑیاں رکتی ہیں جس کے مسافر کھڑکیوں سے باہر دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ اسٹیشن کی اتنی بڑی اور دل کش عمارت، اتنے لمبے لمبے پلیٹ فارم اور دھوپ سے بچانے والے نہایت خوش نما سائبان اس ویرانے میں کھڑے کیا کررہے ہیں۔
19ویں صدی اپنے دوسرے نصف میں تھی کہ ہندوستان میں ’روس آیا، روس آیا‘ کا شور اُٹھا۔ خیال تھا کہ روسی فوجیں ڈنکے بجاتی ہوئی کوئٹہ کے راستے ہندوستان میں وارد ہوں گی اور جب تک بحیرۂ عرب کے گرم پانیوں میں غسل نہیں کرلیں گی، چَین سے نہیں بیٹھیں گی۔
’1876ء میں حکم ہوا کہ جیسی بھی بنے، رُک سے نئی لائن نکالی جائے جو قندھار کی طرف چلے۔ 1879ء میں کابل میں انگریزوں کا قتلِ عام ہوا تو نیا حکم جاری ہوا کہ رک سے سبی تک یہ لائن راتوں رات ڈالی جائے۔ ہندوستان کی تمام ریلوے کمپنیوں نے اپنا مال اسباب اُٹھا کر انجینئروں کے حوالے کردیا چنانچہ 2 اکتوبر 1879ء کو رُک سے سبی کی طرف جانے والی پہلی پٹڑی بچھائی گئی۔ اس کے بعد آندھی اور طوفان کی طرح کام ہوا اور 220 کلومیٹر سے زیادہ لمبی یہ لائن صرف 101 دنوں میں ڈال دی گئی۔‘
اس کا قصہ ذرا دیر بعد، پہلے یہ کہ کسی بھی تحقیق کے دوران کتابوں کا مطالعہ کرتے وقت مختلف مقامات خود جاکر دیکھنے کی ہوک تو اکثر اُٹھتی ہے لیکن جیسا اشتیاق رُک کا یہ اسٹیشن دیکھنے کا ہوا اس کا حال نہ پوچھیے۔ میرے پاس پاکستان کے جتنے بھی نقشے ہیں ان میں رُک کہیں نظر نہیں آیا۔
آخر ہم روہڑی اسٹیشن کے سُپرانٹنڈنٹ عرفان صدیقی کے ہمراہ رُک اسٹیشن پہنچے تو دیکھا کہ علاقے کے بزرگ میرے پہنچنے سے پہلے وہاں پہنچ چُکے تھے۔ کوئی اچھے دنوں میں وہاں ملازم تھا اور کوئی سودا سلف بیچتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اسٹیشن کی عمارت کے مقابل جو جھاڑیاں ہیں یہاں ریلوے کالونی تھی۔ اس میں انگریز افسر اور انجینیئر رہا کرتے تھے۔ ان کی عمارتیں گرگئی ہیں مگر ان کا گورا قبرستان موجود ہے۔
کہتے ہیں کہ وہیں ایک بڑا بازار بھی تھا۔ کوئٹہ جانے والے ہندوستان بھر کے مسافر یہاں خرید و فروخت کیا کرتے تھے۔ سامنے فوج کا ڈیری فارم ہے۔ کوئٹہ چھاؤنی کے لیے سارا دودھ اور مکھن یہاں سے جاتا تھا۔ سبی سے پہلے جو ریگستانی علاقہ ہے، اس کے باشندوں کے لیے پینے کا میٹھا پانی اب بھی یہیں رُک سے جاتا ہے۔ اس کے لیے ہر ہفتے ایک خصوصی ٹرین چلتی ہے۔
تو پھر کیا ہوا۔ اس اسٹیشن کو کس کی نظر کھاگئی؟ کتابوں میں تو ریلوے لائن چمن سے آگے نہ بڑھ سکی، قندھار تک پہنچنے کا خواب ادھورا رہ گیا۔ اس کے علاوہ زلزلوں، بارشوں اور سیلاب نے اس لائن کو اپنی ٹھوکروں میں رکھا یہاں تک کہ سبی سے اترنے والی لائن کو موڑ کر رُک سے ہٹا دیا گیا اور براہِ راست سکھر سے ملا دیا گیا۔ بس اس کے بعد رُک کی رونق رخصت ہوگئی۔
پڑھیے: جوگندر ناتھ منڈل: اچھوت اچھوت ہی رہا
مگر مقامی باشندے اس کی ایک اور کہانی سناتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ رُک میں ایک جوگی رہا کرتا تھا جس کے عقیدت مندوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ باکمال بھی تھا اور اس کے گلے میں سُروں کا رس بھرا ہوا تھا۔ کہتے ہیں کہ رات 2 بجے کے قریب گانا شروع کرتا تھا تو اس کی آواز سن کر دُور دُور سے لوگ کھنچے چلے آتے تھے۔ لوگ اس کا گانا سنتے جاتے تھے اور اس کی پھیلی ہوئی چادر میں پیسے ڈالتے جاتے تھے۔
صبح کی روشنی ہوتے ہی جوگی وہ ساری رقم غریبوں کے حوالے کرکے اور چادر جھاڑ کر چلا جاتا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس صورت حال نے رقابت کی آگ بھڑکادی اور جوگی کے مخالفوں نے ایک روز جب وہ رُک اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر 3 پر کھڑا تھا، اس کو گولی ماردی۔ کئی گھنٹے اس کی لاش وہیں پڑی رہی۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کے بعد رُک کا اسٹیشن اپنی رونق سے محروم ہوگیا۔ اب اکثر گاڑیاں بغیر رُکے گزرجاتی ہیں۔ حالانکہ دیوار پر بڑا بڑا لکھا ہے 'رُک۔'
یہ جوگی کوئی اور نہیں بھگت کنور رام تھے، جنہیں رُک اسٹیشن پر قتل کیا گیا تھا۔ سینئر صحافی نثار کھوکھر کے مطابق رُک اسٹیشن کے اطراف میں بسنے والے لوگ آج بھی بھگت کنور رام کے قاتلوں کو بددعائیں دیتے ہیں۔
تیرتھ وسنت سنہ 1940ء میں اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں،
’ایک بار کا واقعہ ہے کہ پیر آف بھرچونڈی شریف کا بیٹا کسی کام سے سکھر کے شہر سانگی گیا تو وہاں کچھ لوگوں نے اس سے مار پیٹ کی جس کے نتیجے میں پیر صاحب نے اپنے مریدوں کا ایک اجتماع منعقد کیا جس میں مخاصمانہ تقاریر کی گئیں۔ اسی اجتماع میں فیصلہ کیا گیا کہ ہندو برادری کی کسی نمایاں شخصیت کو قتل کیا جائے۔
اس اجتماع میں شامل ایک فرد نے کنور کو راتوں رات اس فیصلے سے آگاہ کیا جس پر انہوں نے سرکار کو اپنے تحفظ کے لیے درخواست دی۔ سرکار نے ان کی حفاظت کے لیے 2 بندوق بردار متعین کیے۔
اکتوبر کے آخری ہفتے میں ضلع دادو کے شہر مانجھند میں امر داس کی پہلی برسی منعقد ہونی تھی جس میں شرکت کا دعوت نامہ انہیں موصول ہو چکا تھا۔ ان کے رشتے داروں اور علاقے کے لوگوں نے انہیں منع کیا کہ اس میں شرکت نہ کریں۔ ایک جوتشی نے انہیں تنبیہ کی کہ گھر سے قدم بھی باہر نہ نکالے، لیکن انہوں نے اس کی پرواہ نہ کی۔
مانجھند سے واپسی پر جب وہ ٹرین میں سوار ہوئے تو اپنے بندوق بردار محافظوں کو ہدایت کی کہ بندوقیں رکھ کر آرام کریں۔ راستے بھر ’سر مارو‘ گاتے رہے۔ جب ٹرین رُک اسٹیشن پہنچی تو فائر کی آواز سنائی دی جو کنور کی گردن میں پیوست ہوگئی، جس کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوگئی۔‘
اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔