سری لنکا: کوہِ قاف کے طلسماتی دیس کو جاتا راستہ
سمن نے کولمبو کے ایک کلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کی زیادہ تر رقاصائیں پاکستانی ہیں، یہی نہیں بلکہ کولمبو میں مہنگی ترین جسم فروش خواتین کا تعلق بھی اُسی خطے سے ہے۔ میرے لیے سمن کے دونوں انکشافات حیران کن تھے، میں نے کہا کہ تم میرے ساتھ مذاق کر رہے ہو؟
سمن میرا ڈرائیور ہونے کے ساتھ ٹؤرسٹ گائیڈ بھی تھا۔ رات گئے جب میں کولمبو ایئر پورٹ پر اُترا تو چھم چھم بارش ہو رہی تھی۔ ایئرپورٹ سے ہی میں نے ایک ٹؤرسٹ کمپنی سے 6 دن کا پیکیج لیا تھا۔ سری لنکا کا شُمار دنیا کے سستے اور خوبصورت ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ سستی پڑتی ہے لیکن اس میں وقت زیادہ صَرف ہوتا ہے جبکہ میں 6 دن کے اندر اندر زیادہ سے زیادہ مقامات کی سیر کرنا چاہتا تھا۔
سری لنکن روپے کی قدر پاکستانی روپے سے کم ہے۔ کار، ڈرائیور، ہوٹل اور ناشتے سمیت مجھے یہ پیکیج تقریباً ایک لاکھ سری لنکن روپے میں ملا جو میں نے فوراً قبول کرلیا۔ مجھے رعایت اس وجہ سے بھی ملی کہ میں پاکستانی تھا۔ میں دنیا کے کم و پیش 25 سے 30 ممالک کی سیر کرچکا ہوں۔ میرے خیال میں اگر کسی ملک میں پاکستانی سیاحوں کی سب سے زیادہ عزت کی جاتی ہے تو وہ سری لنکا ہے اور اس کے بعد شاید ترکی آئے۔
سری لنکا مقناطیسی اور جادوئی سرزمیں ہے۔ رات کے 11 بج چکے تھے، ہلکی ہلکی بارش کا سلسلہ جاری تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں کسی جنگل میں آگیا ہوں۔ کئی دیگر آوازوں کے ساتھ جھینگر کی آوازیں ماحول کو انتہائی پُراسرار بنا رہی تھیں۔ کیلے، پام اور ناریل کے پتوں پر گرتی ہوئی بارش کی جھنکار ان سنے سے سُر بکھیر رہی تھی۔
صبح جب کمرے سے باہر جھانک کر دیکھا تو دور دور تک ناریل اور پام کے درختوں کے جھنڈ نظر آ رہے تھے۔ میں ناشتہ کر ہی رہا تھا کہ سمن مسکراتا ہوا میری ٹیبل پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ ’میں آپ کا نیا ڈرائیور ہوں، رات والے لڑکے کو کمپنی نے کہیں اور بھیج دیا ہے۔‘
سمن ٹوٹی پھوٹی اردو بھی بول لیتا تھا اور چند برس قطر میں بھی گزار کر آیا تھا۔ سمن کی عمر 40 برس کے لگ بھگ ہوگی لیکن چہرے پر ہر دم مسکراہٹ سجی رہتی تھی۔ میں جب بھی پوچھتا کیا حال ہے، اس کا ایک ہی جواب ہوتا، ’سب پِھٹ ہے،‘ وہ ’ف‘ کی جگہ ہمیشہ ’پھ‘ لگا دیتا تھا۔
ہماری سب سے پہلی منزل سری لنکا کا دیو مالائی شہر کینڈی تھا اور کولمبو سے نکلنے کے ساتھ ہی سمن مجھے پاکستانی ڈانسرز اور جسم فروش خواتین سے متعلق معلومات فراہم کرنے لگا تھا۔ اس نے مجھے 2015ء کی ایک ویڈیو دکھائی، جس میں سری لنکن حُکام ایک ہوٹل پر چھاپہ مار رہے ہیں اور پاکستانی خواتین کو گرفتار کررہے ہیں۔ اس گروپ میں لاہور کی 16 سالہ لڑکیاں بھی شامل تھیں۔
آپ کسی بھی سنہالی سے پوچھ لیں وہ یہی کہتا ہے کہ اگر پاکستان ہمارا ساتھ نہ دیتا تو وہ کبھی بھی تامل باغیوں کی تحریک کو کُچل نہیں سکتے تھے۔
ہماری گاڑی کولمبو سے تقریباً 130 کلومیٹر دور کینڈی کی طرف رواں دواں تھی، تھوڑی ہی دیر بعد ہم نے اپنے سفری پلان میں رد و بدل کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ واپسی پر ایسے ہی کسی کلب میں پاکستانی ڈانسرز سے ملاقات کی جائے گی۔
لیکن ان پس پردہ کہانیوں سے قطع نظر سری لنکا میں پاکستانیوں کی عزت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے بھارت کے حمایت یافتہ تامل باغیوں کے خلاف سری لنکا کو نہ صرف ہتھیار فراہم کیے تھے بلکہ اُن کے فوجیوں کی ٹریننگ بھی کی تھی۔ سری لنکا میں 75 فیصد آبادی بدھ مت سنہالیوں پر مشتمل ہے اور وہ 37 سالہ خانہ جنگی میں کامیابی کی وجہ سے پاکستانیوں کی دل سے قدر کرتے ہیں۔