پاکستان

توہین عدالت کیس: نہال ہاشمی پر ایک مرتبہ پھر فرد جرم عائد ہونے کا امکان

نہال ہاشمی توہین عدالت کیس میں ایک ماہ کی قیدکاٹ چکے ہیں تاہم رہائی کےموقع پرانہوں نےایک مرتبہ پھرعدلیہ پرتنقید کی تھی۔
|

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق سینیٹر نہال ہاشمی کا تحریری جواب مسترد کردیا جس کے بعد نہال ہاشمی پر 26 مارچ کو ایک مرتبہ پھر توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کیے جانے کا امکان ہے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے نہال ہاشمی کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔

اس موقع پر نہال ہاشمی سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جہاں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ ہفتے کو انہیں عدالتی حکم نامے کی نقل ملی جبکہ انہوں نے جواب جمع کرادیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے نہال ہاشمی کو ان کا جواب پڑھنے کے لیے کہا۔

نہال ہاشمی نے اپنا جواب پڑھتے ہوئے کہا کہ میں نے کسی جج کا نام نہیں لیا، شفاف ٹرائل میرا حق ہے، میں نے مظلوم قیدیوں کی آواز اٹھائی، انہوں نے سوال کیا کہ کیا مظلوم قیدیوں کی آواز اٹھانا گناہ ہے؟

مزید پڑھیں: توہین عدالت میں ایک ماہ کی سزا کاٹنے والے نہال ہاشمی کو ایک اور نوٹس

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے مزید کہا کہ عدالت کے لیے جان بھی حاضر ہے، ہر آدمی سے غلطی ہوجاتی ہے۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے کہا کہ لائسنس معطل کرنے کا معاملہ بھی دیکھیں گے، عدالت نے آئندہ سماعت پر نہال ہاشمی پر فرد جرم عائد کرنے کا امکان ظاہر کیا جو 26 مارچ کو عائد کی جاسکتی ہے۔

اس موقع پر نہال ہاشمی نے عدالت میں سوال کیا کہ کیا مجھے سیاسی طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے؟ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی تضحیک کی، چیف جسٹس نے کہا کہ انشاء اللہ مثالی فیصلے ہوں گے۔

نہال ہاشمی نے عدالت کے سامنے موقف اختیار کیا کہ ’میں سپریم کورٹ کے لیے جیل گیا‘، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کب تک ہم یہ احسان اٹھاتے رہیں گے، آپ نے بے غیرت کا لفظ استعمال کیا۔

اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ میں نے وہ لفظ آپ کے لیے استعمال نہیں کیا تھا، مائی لارڈ آپ نے اسکرٹ والی بات کی اور ندامت کی، ’میرے لیے معافی کیوں نہیں؟‘

یہ بھی پڑھیں: توہینِ عدالت کیس: نہال ہاشمی اڈیالہ جیل سے رہا

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اسکرٹ والی بات توہین عدالت نہیں تھی آپ اس بات کو اس کیس کے ساتھ جوڑ رہے ہیں؟

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے نہال ہاشمی نے کہا کہ عدلیہ کی بحالی اور عزت کے لیے جیل بھی جاتا رہا ہوں، میں نے کسی جج کا نام نہیں لیا جبکہ شفاف ٹرائل میرا حق ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نواز شریف کا کارکن ہوں اور رہوں گا جبکہ مجھے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

7 مارچ 2018 کو سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں سزا یافتہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما نہال ہاشمی کو ایک مرتبہ پھر ججز کے خلاف نامناسب الفاظ کے استعمال پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے ایک ہفتے میں جواب طلب کیا تھا۔

مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران نہال ہشامی کے وکیل ایڈووکیٹ کامران مرتضیٰ نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ میں اپنا وکالت نامہ واپس لینا چاہتا ہوں، جس پر سپریم کورٹ نے کامران مرتضیٰ کو وکالت نامہ واپس لینے کی اجازت دے دی تھی۔

اس سے قبل روز قبل سپریم کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما نہال ہاشمی کی نظر ثانی کی درخواست پر سماعت کے دوران انہیں ذاتی حیثیت میں 07 مارچ کو طلب کیا تھا۔

نہال ہاشمی کی دھمکی آمیز تقریر

یاد رہے کہ گزشتہ برس مئی میں ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی نے اپنی جذباتی تقریر میں دھمکی دی تھی کہ پاکستان کے منتخب وزیراعظم سے حساب مانگنے والوں کے لیے زمین تنگ کردی جائے گی۔

ایک تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے نہال ہاشمی نے جوش خطابت میں کسی کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ حساب لینے والے کل ریٹائر ہوجائیں گے اور ہم ان کا یوم حساب بنادیں گے۔

ویڈیو میں نہال ہاشمی کو کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے،'اور سن لو جو حساب ہم سے لے رہے ہو، وہ تو نواز شریف کا بیٹا ہے، ہم نواز شریف کے کارکن ہیں، حساب لینے والوں! ہم تمھارا یوم حساب بنا دیں گے'۔

مزید پڑھیں: دھمکی آمیز تقریر کے بعد نہال ہاشمی سینیٹ کی رکنیت سے مستعفی

ان کا مزید کہنا تھا، 'جنھوں نے بھی حساب لیا ہے اور جو لے رہے ہیں، کان کھول کے سن لو! ہم نے چھوڑنا نہیں تم کو، آج حاضر سروس ہو، کل ریٹائر ہو جاؤ گے، ہم تمھارے بچوں کے لیے، تمھارے خاندان کے لیے پاکستان کی زمین تنگ کردیں گے'۔

لیگی سینیٹر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب ایک روز قبل وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز پاناما پیپرز کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے دوبارہ پیش ہوئے، جہاں ان سے 5 گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی۔

وزیراعظم نواز شریف نے لیگی رہنما نہال ہاشمی کے متنازع بیان کا نوٹس لیتے ہوئے انہیں اسلام آباد طلب کرلیا تھا اور ساتھ ہی نہال ہاشمی کے خلاف پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی پرانضباطی کارروائی کاحکم بھی دیا تھا۔

بعدِ ازاں گزشتہ برس 31 مئی 2017 کو مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کی جانب سے نہال ہاشمی کی بنیادی پارٹی رکنیت بھی معطل کردی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: دھمکی آمیز تقریر: نہال ہاشمی نے سپریم کورٹ سے معافی مانگ لی

وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اونگزیب نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ نہال ہاشمی سے سینیٹ کی رکنیت سے بھی استعفیٰ طلب کیا تھا۔

نہال ہاشمی نے پارٹی کی رکنیت سے محروم ہونے کے بعد سینیٹ کی نشست سے بھی استعفیٰ دے دیا تھا تاہم چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی جانب سے نہال ہاشمی کا استعفیٰ منظور نہیں کیا گیا تھا کہ جبکہ انہیں بحیثیت سینیٹر کام جاری رکھنے کی رولنگ دی گئی تھی۔

بعدِ ازاں مسلم لیگ (ن) کی انضباطی کمیٹی نے نہال ہاشمی کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ ان سے عدلیہ کو 'دھمکیاں دینے' اور پارٹی قواعد کی مبینہ خلاف ورزی کی وضاحت طلب کی جاسکے۔

اس کے بعد چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نہال ہاشمی کی دھمکی آمیز تقریر کا ازخود نوٹس لیا اور معاملہ پاناما کیس عملدرآمد بینچ کے پاس بھیجنے کی ہدایت کی تھی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ اس نوٹس پر سماعت کر رہا تھا جس میں گزشتہ سماعت کے دوران نہال ہاشمی نے غیر مشروط معافی بھی مانگی تھی۔

مزید پڑھیں: نہال ہاشمی کو ایک ماہ قید کی سزا، کسی بھی عوامی عہدے سے نااہل قرار

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما نہال ہاشمی کو دھمکی آمیز تقریر اور توہینِ عدالت کیس میں ایک ماہ قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

2 فروری کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہل قرار دیئے جانے والے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی کی سینیٹ نشست خالی قرار دینے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا تھا۔

سابق سینیٹر نہال ہاشمی کو دل کی تکلیف کے باعث اڈیالہ جیل راولپنڈی کے ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا بعدِ ازاں انہیں طبی معائنے کے بعد دوبارہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

بعد ازاں 28 فروری کو نہال ہاشمی کو ایک ماہ کی قید کی سزا کے بعد اڈیالہ جیل سے رہا کردیا گیا تھا، جس کے بعد انہوں نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر عدلیہ اور ججز کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کی تھی۔

اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے نہال ہاشمی نے کہا تھا کہ ان کے ساتھ ظلم کی انتہا کی گئی اور سزا کے دن ہی اس کے خلاف اپیل دائر کی گئی لیکن سزا کا ایک ماہ مکمل ہونے کے باوجود اس پر سماعت نہیں ہوئی۔

نہال ہاشمی نے کہا تھا کہ وہ اللہ سے ڈرنے والوں اور پاکستان کی عزت کرنے والوں سے بات کریں گے اور ان کی بات کسی منافق اور پاکستان کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے والوں کو نہیں سنی چاہیے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’آج میرے رب نے مجھے عزت دار بنا دیا لیکن کس کو کیا بنا دیا اس کا فیصلہ قوم کرے گی‘، سابق سینیٹر نے سوال کیا تھا کہ ملک میں انصاف کا بول بالا کیا گیا ہے یا پھر انہیں انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے۔