’شاہد مسعود کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی‘
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے زینب قتل کیس سے متعلق معروف ٹی وی اینکر اور صحافی ڈاکٹر شاہد مسعود کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب کو مسترد کردیا اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کا عندیہ دے دیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے زینب قتل کے حوالے سے ڈاکٹر شاہد مسعود کے بلند و بانگ دعووں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
اس موقع پر شاہد مسعود کے وکیل نے عدالت عظمیٰ کے سامنے موقف اختیار کیا کہ ہم نے جو تحریری جواب جمع کروایا اس میں پرنٹنگ کی غلطی تھی، بعد ازاں ہم نے نیا تحریری جواب جمع کروادیا ہے۔
جس پر چیف جسٹس نے شاہد مسعود کے وکیل کو نئے تحریری جواب میں شامل کیے گئے نئے پیراگراف کو پڑھنے کی ہدایت کی۔
مزید پڑھیں: زینب قتل ازخود نوٹس: ’ڈاکٹر شاہد مسعود کے دعوؤں کی تصدیق نہیں ہوئی‘
اس موقع پر شاہد مسعود کے وکیل نے پڑھا کہ میرے پروگرام سے اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو ندامت کا اظہار کرتا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شاہد مسعود نے معافی تو نہیں مانگی، ’ہم ٹرائل کریں گے‘۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم قانون کے مطابق شاہد مسعود کے خلاف کارروائی کریں گے، عدالت میں غلط بیانی اور انسداد دہشت گردی کی دفعات پڑھ کر آئیں۔
شاہد مسعود کے وکیل نے کہا کہ سینئر صحافی سے اگر کوئی غلطی ہوئی ہے تو معاف کیا جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پیمرا قوانین دیکھ کر بتائیں کہ چینل کتنی دیر کے لیے بند کیا جاسکتا ہے؟ چیف جسٹس نے شاہد مسعود کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ نے کہا تھا کہ مجھے پھانسی دے دیں۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے ڈاکٹر شاہد مسعود کی جانب سے پیش کردہ جواب مسترد کردیا اور ساتھ ہی ڈاکٹر شاہد مسعود کی جانب سے پیش کردہ جواب کی نقل پنجاب حکومت کے وکیل کو پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 20 مارچ تک کے لیے ملتوی کردی۔
علاوہ ازیں ڈاکٹر شاہد مسعود کے خلاف کیس میں ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کو عدالتی معاون وکیل مقرر کردیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: زینب قتل ازخود نوٹس: شاہد مسعود کو جے آئی ٹی کے سامنے ثبوت پیش کرنے کا حکم
10 مارچ 2018 کو سپریم کورٹ میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے قصور میں 6 سالہ بچی زینب کے قتل میں مجرم عمران علی سے متعلق کیے گئے انکشافات پر اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جس میں انہوں نے اپنے الزامات ثابت نہ کرنے پر معافی مانگے بغیر آئندہ محتاط رہنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
اس سے قبل 7 مارچ کو سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کے دوران ڈاکٹر شاہد مسعود کی جانب سے ملزم عمران کے بین الاقوامی گروہ سے رابطے سے متعلق دعوؤں پر ان کی معافی کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ معافی کا وقت گزر چکا، اب انصاف ہوگا جو سب کو نظر آئے گا۔
یاد رہے کہ قصور میں 6 سالہ بچی کے ریپ اور قتل کے بعد ڈاکٹر شاہد مسعود کی جانب سے اپنے پروگرام میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس واقعے میں پکڑا گیا ملزم عمران کوئی معمولی آدمی نہیں بلکہ اس کے 37 بینک اکاؤنٹس ہیں اور وہ ایک بین الاقوامی گروہ کا کارندہ ہے اور اس گروہ میں مبینہ طور پر پنجاب کے ایک وزیر بھی شامل ہیں۔
اس دعوے کے بعد چیف جسٹس نے نوٹس لیا تھا اور انہیں سپریم کورٹ میں طلب کیا تھا، جہاں ڈاکٹر شاہد مسعود نے عدالت کو ملزم کے 37 بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات جمع کراتے ہوئے ایک پرچی پر ان شخصیات کا نام لکھ کر دیئے تھے۔
مزید پڑھیں: زینب قتل کیس: مجرم عمران سے متعلق الزامات پر شاہد مسعود کا اظہار ندامت
بعدازاں اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی جانب سے اس کیس کی تحیقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کو رپورٹ پیش کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ اینکر پرسن کے دعوے کے بعد تحقیقات کی گئی لیکن مرکزی ملزم کا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں ملا۔
جس کے بعد ترجمان پنجاب حکومت ملک احمد خان نے اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'سرکاری طور پر اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ ڈاکٹرشاہد مسعود کی رپورٹ بے بنیاد اور من گھڑت ہے اور ہم اس رپورٹ کے پیچھے چھپے محرکات سمجھنے سے قاصر ہیں جو انہوں نے نتائج کو دیکھے بغیر چلائی تھی۔
زینب قتل کیس سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ٹی وی اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کے دعوے کی تحقیقات کے لیے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) بشیر احمد میمن کی سربراہی میں نئی جے آئی ٹی بنانے کی ہدایت کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پورنو گرافی سے متعلق ڈاکٹر شاہد مسعود کے الزامات: ’اب معافی کا وقت نکل گیا‘
عدالتِ عظمیٰ نے حکم جاری کیا تھا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود نئی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر ملزم عمران کے 37 بینک اکاؤنٹس سے متعلق ثبوت فراہم کریں۔
یکم مارچ کو ڈاکٹر شاہد مسعود کے ٹی وی پروگرام میں کیے گئے دعوؤں اور انکشافات کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی کمیٹی نے اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی تھی جس میں اینکر پرسن کے دعوؤں کو جھوٹ قرار دے دیا گیا تھا۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ کے اہم مندرجات کے مطابق ڈاکٹر شاہد مسعود کے تمام انکشافات کی تصدیق نہیں ہوئی۔