نومنتخب سینیٹرز ایوان بالا میں حلف اٹھارہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
واضح رہے کہ ہر 3 سال بعد سینیٹ کے 104 ارکان میں سے نصف 52 ریٹائرڈ ہو جاتے، جن کا قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے انتخاب کیا جاتا ہے۔
حلف برداری کے بعد مسلم لیگ (ن) کے راجہ ظفر الحق نے چیئرمین سینیٹ اور عثمان خان کاکڑ نے ڈپٹی چیئرمین کے لیے کاغذات جمع کروائے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سمیت حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کی جانب سے صادق سنجرانی نے چیئرمین سینیٹ جبکہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے سلیم مانڈوی والا نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے، جنہیں جانچ پڑتال کے بعد منظور کرلیا گیا۔
کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد چیئرمین سینیٹ کے دونوں ہی اُمیدواروں کی جانب سے اکثریت کی حمایت حاصل کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔
اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کے رہنما مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی جانب سے راجہ ظفر الحق کو چیئرمین اور عثمان کاکڑ کو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے امیدوار ہوں گے۔
واضح رہے کہ سینیٹ کی کل نشستوں کی تعداد 104 ہے، جن میں سے چیئرمین سینیٹ کی کامیابی کے لیے 53 ارکان کے ووٹ درکار ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں: صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ کے مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آگئے
3 مارچ کو سینیٹ کی 52 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے سب سے زیادہ 15 نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ پیپلز پارٹی نے 12 اور تحریک انصاف کے 6 سینیٹرز کامیاب ہوئے تھے، اس کے ساتھ 10 آزاد امیدوار بھی سینیٹ کی نشت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
اس انتخاب کے بعد سینیٹ میں سیاسی جماعتوں کی پوزیشن کی بات کی جائے تو پاکستان مسلم لیگ (ن) 33 نشستوں کے ساتھ اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے ہے۔
پی پی پی کے سینیٹرز کی تعداد 20 اور پی ٹی آئی کے 12 سینیٹرز ہیں جبکہ 17 آزاد سینیٹرز بھی ایوان میں موجود ہیں۔
اس کے علاوہ ایم کیو ایم پاکستان کے 5، نیشنل پارٹی کے بھی 5، جمعیت علماء اسلام (ف) کے 4، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے 5، جماعت اسلامی 2، اے این پی 1، پاکستان مسلم لیگ (ف) 1 اور بی این پی مینگل کا بھی ایک سینیٹر ہے۔
چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی نشست پر اپنے امیدوار کی کامیابی کے لیے حکمران جماعت سمیت اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مطلوبہ تعداد حاصل کرنے کی کوشش جاری رکھی گئی۔
اس بارے میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما مشاہد اللہ کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ (ن) اور اتحادیوں کے پاس نمبر گیم پورا ہے اور آج جمہوری قوتیں ایک جانب اور غیر جمہوری قوتیں دوسری جانب ہیں جبکہ ہمیں جماعت اسلامی اور اے این پی کی بھی حمایت حاصل ہے‘۔
دوسری جانب سینیٹ چیئرمین کے لیے تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کی حمایت کے بعد بلوچستان سے منتخب ہونے والے آزاد امیدوار صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ کے لیے مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے لایا گیا تھا.
پیپلز پارٹی کی جانب سے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے سلیم مانڈوی والا کا نام سامنے آیا اور پی ٹی آئی کی جانب سے ان کی حمایت کی گئی جبکہ سینیٹر ہدایت اللہ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کے 12 منتخب سینیٹرز میں سے 8 نے صادق سنجرانی کی حمایت کا اعلان کیا۔
دوسری جانب چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب جیتنے کے لیے مطلوبہ تعداد پوری ہونے کا دعویٰ بھی کیا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے ہمرا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے بلوچستان سے آزاد منتخب ہونے والے صادق سنجرانی کی حمایت کرے گی اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے سلیم مانڈوی والا امیدوار ہوں گے۔
رضاربانی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ رضا ربانی پیپلزپارٹی کا اثاثہ ہیں اور ان کے لیے میرے پاس دوسرا پلان ہے۔
اس حوالے سے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے سینیٹ اجلاس میں شرکت سے قبل صحافی سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پارٹی کے ساتھ ہیں اور ان کی پارٹی سے پہلے بھی کوئی ناراضی نہیں تھی۔
آصف زرداری کے سخت موقف کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہر ایک کو بات کرنے کا حق ہے اور آصف زرداری سے ملاقات میں کوئی وضاحت نہیں دی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل پاکستان مسلم لیگ(ن) کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کے لیے رضا ربانی کی حمایت کی تھی، تاہم پیپلز پارٹی کی جانب سے رضا ربانی کے نام کو مسترد کردیا گیا تھا اور انہوں نے اس نشست کے لیے نیا امیدوار لانے کا اعلان کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات میں کب، کیا اور کیسے ہوتا ہے؟
یاد رہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے بھی پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کو چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا تھا،تاہم وزیراعلیٰ بلوچستان کی سربراہی میں وفد میں ہونے والی ملاقات کے بعد عمران خان نے پیپلز پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین کو ووٹ دینے کا اعلان کردیا۔
اس کے علاوہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما خالد مقبول صدیقی کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کے لیے صادق سنجرانی کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہم چاہتےہیں کہ چھوٹے صوبوں کو حقوق ملیں اور ہم صادق سنجرانی کے لیے مہم بھی چلائیں گے۔
تاہم خالد مقبول صدیقی نے پیپلز پارٹی کے امیدوار سلیم مانڈوی والا کی حمایت کے حوالے سے کہا کہ ووٹ مانگنے کے لیے پی پی پی بھی آئی تھی لیکن ہمارے لیے ان کے امیدوار کو ووٹ دینا مشکل ہے۔
ادھر عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی جانب رضا ربانی کے بطور چیئرمین سینیٹ امیدوار نہ ہونے کی صورت میں حکمران جماعت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔
اے این پی کی سینیٹر ستارہ ایاز نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اے این پی کا اصولی موقف ہے اور اس کے مطابق ہی ووٹ دیں گے، اگر رضا ربانی امیدوار ہوتے تو انہیں ووٹ دیتے لیکن اب ووٹ دوسری طرف جائے گا۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے اے این پی حمایت کے دعویٰ پر کیے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی پہلے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے پھر بات کریں گے۔
علاوہ ازیں جمعیت علماء اسلام (ف) کی جانب سے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے حکمران جماعت کے امیدواروں کی حمایت کا اعلان کیا گیا۔
خیال رہے کہ بلوچستان سے آزاد منتخب ہونے والے صادق سنجرانی کو پی پی پی قیادت کا قریبی تصور کیا جاتا ہے جن کی حمایت کے عوض پی پی پی نے ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ بھی مانگ لیا تھا۔