نزہت جھنگ میں اپنے نانا نانی اور بھائی کے ساتھ— فوٹو بلال کریم مغل
سرفراز اور مقامی پولیس کا اس بات پر اختلاف ہے کہ شادی کس طرح ہوئی۔ 16 اکتوبر 2017ء کو پولیس کو جمع کروائی گئی درخواست میں سرفراز کا مؤقف ہے کہ اس کی بیٹی کو اغواء کیا گیا اور پھر اعجاز اور اس کے آدمیوں نے دباؤ ڈال کر اس سے شادی کرلی۔ سرفراز کا یہ بھی الزام ہے کہ اعجاز نے اسے اور اس کی بیوی روبینہ کو جھنگ سرگودھا ہائی وے کے ساتھ واقع ایک گاؤں میں محبوس رکھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ 20 دن بعد قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے، مگر روبینہ اب بھی اعجاز خان کی قید میں ہے۔
دوسری جانب پولیس نے سرفراز کی درخواست کے ایک دن بعد رپورٹ درج کی جس میں سرفراز پر اپنی کم عمر بیٹی کی شادی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اب سرفراز جیل میں ہیں اور مقدمہ جھنگ کی ایک عدالت میں زیرِ سماعت ہے جس نے حکم دیا تھا کہ نزہت کو اغوا کاروں سے چھڑوا کر اس کے نانا ظفر اقبال کے حوالے کیا جائے۔
ظفر اقبال جب اس کی آپ بیتی سناتے ہیں تو نزہت اپنی نانی کی بانہوں سے لپٹی ہوئی ہے۔ اس کے کانوں پر زخم موجود ہیں جو اب بھر رہے ہیں۔ نزہت کا کہنا ہے کہ یہ زخم اغواء کے دوران ہونے والے تشدد کی وجہ سے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتی ہے کہ اس سے سارا دن گھر کا کام کروایا جاتا تھا جب کہ 24 گھنٹے میں صرف ایک بار کھانا دیا جاتا۔ اسے یہ بھی یاد نہیں ہے کہ راتوں میں اس کے ساتھ کیا ہوتا تھا۔ یاد ہے تو بس اتنا کہ سونے سے پہلے اسے پینے کے لیے کچھ دیا جاتا تھا۔ طبی رپورٹ کے مطابق اسے نیند میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
**27 سالہ اکرم*** کا تعلق ضلع جھنگ کے جنوبی حصے میں موجود تحصیل احمد پور سیال سے ہے۔ وہ اپنے علاقے میں ایک پرائیوٹ اسکول چلاتے ہیں اور اکثر و بیشتر مقامی ویب سائٹس اور نیوز چینلز کے لیے فری لانس رپورٹر کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔ سیاہ پینٹ، سرخ ٹی شرٹ اور ایک جیکٹ میں ملبوس اکرم پُراعتماد اور پُرسکون دکھائی دیتے ہیں۔
اکرم صرف 5 سال کے تھے جب ان کے والدین نے ان کی شادی کردی تھی۔ یہ ایک وٹے سٹے کی شادی تھی جس میں ان کی بیوی صرف چند ماہ کی تھی اور اکرم کی بڑی بہن کے سسرال سے تعلق رکھتی تھی۔ اسے تب تک اپنے والدین کے ساتھ رہنا تھا جب تک ان کی باقاعدہ شادی نہ ہوجاتی۔ اکرم بتاتے ہیں کہ ان کی برادری میں ایسی شادیاں عام ہیں۔
جب اکرم کالج میں تھے تو انہیں احساس ہوا کہ ان کی ہونے والی بیوی بالکل بھی تعلیم حاصل نہیں کر رہی تھی۔ انہیں ایک ایسی شادی کی تکمیل کے تصور سے ہی بے چینی ہو رہی تھی جس میں ان کی رضامندی شامل نہیں تھی۔ چنانچہ انہوں نے اس تعلق کو جاری رکھنے سے انکار کردیا۔ شروع میں تو ان کے انکار کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ انہیں بتایا گیا کہ اس شادی کو تحلیل کرنا ناممکن تھا کیوں کہ اس سے ان کی بہن کی بھی طلاق ہوجاتی، جیسا کہ عام طور پر وٹے سٹے کی شادیوں میں ہوتا ہے۔ 2014ء میں جب انہوں نے سرگودھا یونیورسٹی سے ماس کمیونکیشن میں ماسٹرز کرلیا تو ان کے خاندان نے شادی کے لیے تیاریاں کرنے کو کہا، مگر اکرم نے انکار کردیا۔
ان کے گھر والوں نے بات چیت کے ذریعے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی۔ ان پر نفسیاتی دباؤ بھی ڈالا۔ پھر ان کے سسرالیوں نے انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ اکرم یاد کرتے ہیں کہ کس طرح ان کے گھر سے پانی کے نکاس کو روک دیا گیا تھا جس سے ان کے کمرے گندے پانی سے بھر گئے تھے۔ اکثر اوقات اکرم کی والدہ کو سرِعام طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا۔
تنگ آکر آخر انہوں نے گھر چھوڑ دیا اور اسلام آباد میں پاکستان تحریکِ انصاف کے دھرنے میں شامل ہوگئے۔ وہ وہاں کئی ماہ رہے جب تک دھرنا جاری رہا۔ اس سے ان کے خاندان کی مشکلات میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ ان کا سوشل بائیکاٹ جاری رہا اور ان کی بہن کو اکثر اوقات سسرال میں طنز کا سامنا کرنا پڑتا۔ اکرم پھر بھی اپنے انکار پر ثابت قدم رہے۔ بالآخر انہیں کہا گیا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دیں۔ انہوں نے یہ بات مان لی۔ ان کی بہن کے لیے شکر کا مقام یہ تھا کہ بدلے میں انہیں طلاق نہیں دی گئی کیوں کہ ان کے سسرالی اس بات کو سمجھ گئے تھے کہ اکرم نے ان کی بیٹی کو طلاق کسی ذاتی مخاصمت کی بناء پر نہیں بلکہ صرف اپنے نظریات کی وجہ سے دی تھی۔
انہیں اپنے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں اور بخوشی کہتے ہیں کہ ان کے اس اقدام کی وجہ سے اب ان کی برادری میں لوگ کم سنی کی شادیوں سے ہچکچانے لگے ہیں۔ اکرم کہتے ہیں کہ ’لوگ اب ڈرتے ہیں کہ کم سنی میں اگر شادی کروائی، تو یہ نہ ہو کہ بچے بڑے ہو کر اس شادی کو جاری رکھنے سے انکار کر دیں۔‘
کراچی کے ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی کے علاقے کے ساتھ واقع اختر کالونی میں رومن کیتھولک عیسائیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ سورج غروب ہونے کے بعد ناکافی روشنی کی وجہ سے ٹوٹی پھوٹی گلیوں میں کسی گھر کو اس کے نمبر سے پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے۔ لیکن راستہ پوچھنے میں مشکل یہ ہے کہ مقامی ذریعے لوگوں کی نظروں میں آجائیں گے، جبکہ وہ اس توجہ سے بچنا چاہتے ہیں۔
جین* اور ان کے شوہر اپنے گھر کے باہر ہی کھڑے ہیں تاکہ ان کے گھر کو پہچاننے میں مشکل نہ ہو، ورنہ ان کا گھر علاقے کے دوسرے گھروں سے کچھ الگ نہیں ہے۔ وہ فوراً ہی مجھے گھر کے اندر لے جاتے ہیں تاکہ کوئی یہ نہ جان سکے کہ ایک صحافی ان کے گھر آیا ہوا ہے۔ وہ ستمبر 2016ء سے شدید ذہنی پریشانی کا شکار ہیں جب جین کی میٹرک کی طالبہ بیٹی جولی* غائب ہوگئی۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے پڑوسی دوبارہ یہ واقعہ تازہ کرکے انہیں شرمندہ کریں۔
گھر اندر سے دیکھنے پر مکینوں کی غربت صاف جھلک رہی ہے۔ جین یاد کرتی ہیں کہ کس طرح جولی گزشتہ سال اسکول گئی اور پھر کبھی واپس نہیں آئی۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’اگلے دن ہمیں اپنے ایک مسیحی پڑوسی کا فون آیا جس نے بتایا کہ اس کے بھائی اور ہماری بیٹی نے اسلام قبول کرکے اپنی پسند سے شادی کرلی ہے۔‘ یہ کہہ کر وہ رک جاتی ہیں تاکہ اپنے آنسوؤں پر قابو پاسکیں۔ پھر وہ بات جاری رکھتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’اس وقت میری بیٹی صرف 15 سال کی تھی۔‘
جین اور ان کے شوہر اگلے دن مقامی پولیس اسٹیشن گئے تاکہ مقدمہ درج کروایا جاسکے کیوں کہ ان کی بیٹی شادی کی قانونی عمر تک نہیں پہنچی تھی، لہٰذا اس کی شادی غیر قانونی تھی۔ لیکن پولیس نے غیر قانونی شادی کے بجائے اغواء کا مقدمہ درج کیا۔ جولی کے شوہر مائیکل* نے اس مقدمے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی۔ نتیجتاً عدالت نے جولی کے والدین کا درج کروایا گیا مقدمہ ختم کرتے ہوئے جولی کو اپنے شوہر مائیکل کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی۔
جین کہتی ہیں کہ جج صاحبان نے جس چیز کو مدِنظر نہیں رکھا وہ یہ کہ جولی کی شادی میں سندھ کے بچوں کی شادی کے انسداد کے قانون 2013ء (سی ایم آر اے 2013ء) کی خلاف ورزی ہوئی تھی جس میں بچے کی مرضی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ جج صاحبان کو اس بات پر بھی مسئلہ نہیں ہوا کہ شادی کے وقت جولی کا کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ بھی نہیں بنا ہوا تھا کیوں کہ وہ 18 سال سے کم عمر کی تھی۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر جین کے وکیل کہتے ہیں کہ اگر پولیس اور عدالت نے اس شادی کی قانونی حیثیت پر غور کیا ہوتا تو مقدمے کا نتیجہ مختلف نکلتا۔ جولی اس وقت اپنے شوہر کے بجائے اپنے گھر والوں کے ساتھ رہ رہی ہوتی، جبکہ اس کا شوہر جیل میں ہوتا۔ اب وہ اس خاندان کا مقدمہ سپریم کورٹ میں لڑ رہے ہیں۔
اغواء کے مقدمے میں جج صاحبان چاہتے ہیں کہ اغواء کیے گئے شخص کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ اس سے پوچھا جاسکے کہ ان کی گمشدگی جبری تھی یا نہیں۔ ان کے وکیل سمجھاتے ہیں کہ ’اگر وہ شخص نا میں جواب دے، تو مقدمہ ختم کردیا جاتا ہے۔‘ ان کے مطابق یہ 'نا' اکثر دباؤ ڈال کر کہلوایا جاتا ہے، خاص طور پر تب جب مغوی کم عمر ہو۔
مذہب کی جبری تبدیلی کے نتیجے میں ہونے والی شادیوں جیسے مسائل ہی تھے جس کی وجہ سے سندھ میں کم سنی کی شادیوں کے خلاف قانون منظور کیا گیا تھا۔ جب پایا گیا کہ سندھ میں مسلمان مردوں سے شادی کے لیے اسلام قبول کرنے والی ہندو لڑکیوں کی اکثریت اپنی ابتدائی یا وسطی ٹین ایج میں تھی، تو قانون نے شادی کی قانونی عمر کو 18 سال کردیا۔
نومبر کے ابتدائی دنوں میں ننکانہ صاحب میں مذہبی میلے کا وقت ہے جبکہ اسموگ نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ وسطی پنجاب کے اس قصبے میں ہزاروں سکھ موجود ہیں تاکہ سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک کی پیدائش کا جشن منایا جاسکے۔
اسموگ سے بھرپور ایک دوپہر میں ننکانہ صاحب سے نکلنے والی سڑک بمشکل ہی نظر آرہی ہے۔ شہر سے تقریباً 15 کلومیٹر دور مغربی جانب ایک گاؤں چک وٹوواں 638 جی بی ہے۔ صابرہ بی بی نامی بیوہ خاتون اسی بستی میں کینال کے پاس رہتی ہیں۔ ان کی بیٹی کی حال ہی میں ایک پیچیدہ زچگی کی وجہ سے موت ہوئی ہے۔
صابرہ کے چھوٹے سے گھر میں 2 کمرے اور ایک چھوٹا سا صحن ہے۔ وہ فوج سے نان کمیشنڈ افسر کے طور پر ریٹائر ہونے والے اپنے مرحوم شوہر کی معمولی سی پینشن پر 10 لوگوں کا گھر چلا رہی ہیں۔ صابرہ کہتی ہیں کہ ’جیسے ہی لڑکی روٹیاں صحیح پکانی شروع کردے اور گھر کا کام سنبھالنے لائق ہوجائے تو اسے شادی کے لیے بالکل موزوں و قابل سمجھا جاتا ہے۔‘ وہ بتاتی ہیں کہ کچھ والدین اپنی بیٹیوں کی جلدی شادی نہ کرسکیں تو پوری برادری ان پر ایسا جلد از جلد کرنے کے لیے دباؤ ڈالتی ہے۔ صابرہ کہتی ہیں کہ ’معاشرے کے دباؤ کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہے۔ لوگوں کو خوف ہوتا ہے کہ اگر لڑکیوں کی شادی جلد نہ کی گئی تو وہ غلط مردوں کے جال میں پھنس سکتی ہیں، اور گھر سے بھاگ بھی سکتی ہیں۔‘