پاکستان

افغان مفاہمتی عمل کے فروغ کی ضرورت کیلئے پاکستان اور امریکا رضامند

ہم نے اپنے خدشات کا اظہار کیا، انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا، لیکن دونوں ممالک مثبت روابط چاہتے ہیں، تہمینہ جنجوعہ

واشنگٹن: اعلیٰ سطح کی بات چیت کے دوران پاکستان اور امریکا نے افغانسان میں مفاہمتی عمل کو فروغ دینے اور اس کی بحالی کے لیے زور دیا ہے۔

امریکی دارالحکومت میں ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستان کی سیکریٹری داخلہ تہمینہ جنجوعہ نے کہا ہے کہ ان کی امریکی حکام سے ملاقاتیں مثبت رہیں جبکہ امریکا نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مذید مستحکم کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان کی سیکریٹری خارجہ دو روزہ دورے پر واشنگٹن میں موجود تھیں، جہاں انہوں نے امریکا کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں۔

سیکریٹی خارجہ تہمینہ جنجوعہ کے ساتھ امریکی حکام سے ملاقاتوں میں شرکت کرنے والے امریکا میں پاکستان کے سفیر اعزاز احمد چوہدری کا کہنا تھا کہ ملاقاتوں کے دوران افغانسان میں امن کے قیام اور مفاہمت پر زیادہ زور دیا گیا جبکہ دونوں ممالک کے حکام نے افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے حال ہی میں طالبان کو امن مذاکرات کی پیشکش کو بھی خوش آئند قرار دیا۔

مزید پڑھیں: ’امریکا پاکستان کی حدود میں فوجی کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتا‘

سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے بتایا کہ ’ملاقات کے دوران ہم نے اپنے خدشات کا اظہار کیا، انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا، لیکن پیغام یہی تھا کہ دونوں ممالک مثبت روابط چاہتے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں یہ دیکھا ہے کہ ہمیں کس طرح آگے بڑھنا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ باقاعدہ مشاورتی عمل کو دوبارہ بحال ہونے کی ضرورت ہے، تاکہ ایک طریقے کے ساتھ بات چیت کا دور مقرر کیا جاسکے‘۔

ان کا مزید کہان تھا کہ دورہ اسلام آباد اور واشنگٹن سے کارآمد تو ہیں، لیکن یہ مذاکرات کے عمل کا متبادل نہیں ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان اور امریکی حکام کے درمیان وزارتی عمل کے تحت آخری اجلاس فروری 2016 میں منعقد ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا نے پاکستان کا نام ’خصوصی واچ لسٹ‘ میں ڈال دیا

تہمینہ جنجوعہ کی زیر قیادت پاکستانی وفد سے وائٹ ہاؤس میں امریکا کی قومی سلامتی کی نائب مشیر نادیہ شیدلو کی قیادت میں امریکی سینٹ کام کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل اور نیشنل سیکیورٹی کونسل میں جنوبی اور وسطی ایشیا کی سینیئر ڈائریکٹر لیزا کرٹس نے ملاقات کی۔

امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں ہونے والی ملاقات میں ڈپٹی سیکریٹری جان جے سُلیوان نے امریکی وفد کی قیادت کی جس میں امریکا کی قائم مقام سیکریٹری آف اسٹیٹ الیس ویلز سمیت دیگر اعلیٰ حکام بھی شریک تھے۔

جنرل جوزف ووٹل کی وائٹ ہاؤس میں امریکی وفد میں شمولیت پاکستان کے لیے خوش آئند تھی کیونکہ حال ہی میں ان کی جانب سے بیانات سامنے آئے تھے جس میں انہوں نے پاکستان کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرنے کی خواہش پر زور دیا تھا۔

تہمینہ جنجوعہ کا کہنا تھا کہ ’امریکی اب پاکستان کی اہمیت کو سمجھتے ہیں، جس پر انہوں نے زور بھی دیا اور اس کا اظہار بھی کیا‘۔

مزید پڑھیں: امریکا ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے، سابق پاکستانی سفیر

سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ہم نے انہیں بتادیا ہے کہ یہ طویل عرصے پر محیط رشتہ ہے، جس میں باضابطہ مذاکراتی عمل کی ضرورت ہے‘۔

انہوں نے واشنگٹن کے دباؤ میں امریکی دورے کی افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسا تاثر اٹھ رہا ہے کہ پاکستان کو کچھ کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے، ہم اس ابہام سے اتفاق نہیں کرتے‘۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان حکام نے امریکی حکام کو بتادیا ہے کہ اسلام آباد افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے طالبان کو امن کی بحال کے لیے مذاکرات کی پیشکش کو خوش آمدید کہتا ہے اور اس عمل میں سہلوت پہنچانے کا بھی خواہشمند ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’افغانستان میں ایسے کئی عناصر موجود ہیں جن پر غور کرنے کی بھی ضرورت ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا نے پاکستان کو 15 سال تک امداد دے کر بیوقوفی کی، ڈونلڈ ٹرمپ

تہمینہ جنجوعہ کا کہنا تھا کہ بات چیت کے دوران پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے میں ناکام ریاستوں کی فہرست میں شامل کرنے کے حوالے سے امریکی قرارداد پر بھی بات چیت ہوئی اور اس حوالے سے امریکی حکام کو کہ دیا گیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کی فنڈز جمع کرنے کی مہم کے خلاف کریک ڈاؤن کو بھی مدِ نظر رکھا جائے۔

تہمینہ جنجوعہ نے کہا کہ امریکی حکام کی جانب سے گزشتہ ماہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس کے کی تفصیلات فراہم نہیں کیں، تاہم انیہں آگاہ کردیا گیا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کیلئے اقدامات کیے ہیں، اور اس ضمن میں کارروائیاں مستقبل میں بھی جاری رہیں گی۔


یہ خبر 10 مارچ 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی