چیئرمین سینیٹ کیلئے جوڑ توڑ: مسلم لیگ (ن) کے وفد کی متحدہ کے دونوں دھڑوں سے ملاقاتیں
کراچی: گورنر سندھ ڈاکٹر محمد زبیر نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ اور سلیم ضیاء کے ہمراہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے دونوں دھڑوں سے ملاقاتیں کیں اور چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سمیت دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا۔
گورنر سندھ کی صدارت میں وفد نے پہلے ایم کیو ایم پاکستان پی آئی بی گروپ کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار گروپ سے ملاقات کی، ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے گورنر سندھ محمد زبیر کا کہنا تھا کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے مثبت جواب آنے کی امید ہے۔
کراچی کے معاملے پر ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے کراچی کے لیے جو ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا تھا اس پر کافی حد تک کام مکمل ہوچکا ہے اور آئندہ چند روز میں کراچی کے عوام بہتری دیکھیں گے۔
مزید پڑھیں: چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کیلئے سیاسی جماعتوں کے رابطوں میں تیزی
انہوں نے یاد دہائی کرائی کہ شہر میں پانی کے منصوبے بنانا یا سڑکوں کی تعمیر وفاقی حکومت کا کام نہیں ہے لیکن ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے مسلسل شہری مسائل کو اجاگر کرنے پر ہم نے بہت سے ایسے کام کیے ہیں جو ہماری ذمہ داری نہیں تھے۔
انہوں نے کہا کہ لیاری ایکسپریس وے کی تکمیل میں وفاق کا بھرپور کردار تھا جبکہ پانی کے منصوبے کے 4 کے پہلے حصے کی تکمیل اپنے مراحل میں ہے، اس کے ساتھ ساتھ گرین لائن بس منصوبے پر بھی کام جاری ہے اور اس کی تکمیل سے کراچی کے عوام کے مسائل حل ہوں گے اور شہریوں کو بہتر سفری سہولیات ملیں گی۔
انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ صوبائی حکومت کے جو کام تھے وہ انہوں نے نہیں کیے لیکن وفاقی حکومت نے کراچی کے مسائل کو دیکھتے ہوئے 25 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا اور اس حوالے سے فارق ستار سے ایک ڈیڑھ سال سے رابطے میں تھے۔
گورنر سندھ کا کہنا تھا کہ حیدرآباد یونیورسٹی کے حوالے سے بھی کافی مسائل تھے لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے تمام کام مکمل کرلیا گیا ہے اور ایک ماہ میں اس یونیورسٹی کا کام شرع ہوجائے گا۔
اس سے قبل میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ اس ملاقات کا بنیادی مقصد چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کا انتخاب ہے، تاہم (ن) لیگ کی حمایت کا فیصلہ رابطہ کمیٹی کے مشاورتی اجلاس میں ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز پیپلزپارٹی کا ایک وفد ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے پاس آیا تھا اور میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ خالد مقبول صدیقی کے پاس سینیٹرز کی تعداد زیادہ ہے لیکن ہمیں اس معاملے پر مل کر فیصلہ کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو مشاورت کا کہا لیکن انہوں نے مجھ سے مشاورت نہیں کی اور مجھے اس بات کا عندیہ ملاہے انہوں نے پیپلز پارٹی کو یہ کہہ دیا کہ ہے کہ ہم انہیں مایوس نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی شہلا رضا اور ایم کیو ایم کے ایم پی اے کے ساتھ تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا اور انہوں نے نامناسب الفاظ استعمال کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان تمام معاملات پر پہلے شہلا رضا سے غیر مشروط معافی منگوانی چاہیے تھی لیکن یہ لوگ اپنے سینیٹرز کے ووٹ انہیں دینے جارہے ہیں جو سنگین غلطی ہوگی۔
فاروق ستار نے خبر دار کرتے ہوئے کہا کہ اگر بہادرآباد کے ساتھیوں نے یکطرفہ طور پر یہ فیصلہ کرلیا تو میں انہیں سیاسی طور پر نہیں چھوڑوں گا کیونکہ یہ مینڈیٹ کراچی کے عوام کا ہے جس پر سب سے زیادہ ظلم پاکستان پیپلز پارٹی نے کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی نے ہمارے ترقیاتی فنڈز روکے ہوئے ہیں اور نہ ہی روزگار سندھ کے شہری علاقوں کے عوام کو کوئی حصہ دیا۔ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما کا کہنا تھا کہ بہادرآباد کے ساتھیوں نے اگر معافی منگوانے سے قبل یہ غلطی کی تو کراچی کا ووٹ بینک بہادرآباد کے ساتھ نہیں ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ کا اور خاص طور پر کراچی کا جو حال ہے وہ پیپلز پارٹی کی وجہ سے ہے اور اگر پیپلز پارٹی کو سینیٹ کہ یہ ووٹ دیے جارہے ہیں تو یہ کراچی کے عوام کے ساتھ زیادتی ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات: سیاسی جماعتوں کا ووٹ کی ‘خریداری’ کی تحقیقات کا مطالبہ
کراچی کے مسائل پر ان کا کہنا تھا کہ سنا ہے کراچی میں فنڈز آگئے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد شروع نہیں ہوا حبکہ حیدرآباد میں تو کوئی کام شروع نہیں ہوا، اس کے ساتھ ساتھ حیدرآباد یونیورسٹی کا معاملہ بھی اہم مسئلہ ہے۔
فاروق ستار کا کہنا تھا کہ حیدرآباد کی یونیورسٹی کی تعمیر سے طلباء کو کافی ریلیف ملے گا اور ہم چاہتے ہیں کہ حکومتی مدت ختم ہونے سے پہلے تمام کام مکمل ہوجائیں۔
’ایسا فیصلہ کریں گے جو جمہوریت کو مضبوط کرے‘
دوسری جانب گورنر سندھ کے ہمراہ لیگی وفد نے ایم کیو ایم پاکستان بہادر آباد گروپ کے رہنماؤں سے بھی ملاقات کی، ملاقات کے دوران ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، نسرین جلیل، امین الاحق اور رؤف صدیقی بھی موجود تھے۔