دنیا

افغانستان: ڈورن حملے میں ٹی ٹی پی کے سربراہ ملا فضل اللہ کا بیٹا ہلاک

افغان انٹیلی جنس کی فراہم کردہ اطلاعات پر حملہ ہوا، جس میں عبداللہ سمیت 20 خود کش حملہ آوار ہلاک ہوئے، ٹی ٹی پی

پشاور: افغانستان کے صوبے کنڑ میں امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ ملا فضل اللہ کے بیٹے سمیت 20 جنگجو ہلاک ہوئے۔

ٹی ٹی پی نے باجوڑ ایجنسی میں میڈیا کو موبائل فون پر بذریعہ میسج تصدیق کی کہ افغانستان کے صوبے کنڑ میں امریکی ڈرون حملے میں ملا فضل اللہ کے بیٹے عبداللہ سمیت 20 خود کش حملہ آوار ہلاک جبکہ 6 زخمی ہو گئے ہیں۔

یہ پڑھیں: کالعدم ٹی ٹی پی کی خالد سجنا کی ہلاکت کی تصدیق

ٹی ٹی پی نے الزام عائد کہ افغان انٹیلی جنس ایجنسی کی اطلاعات پر امریکا نے حملہ کیا۔

اس حوالے سے باخبر ذرائع نے بتایا کہ امریکا نے باجوڑ ایجنسی کے پاس افغانستان کے صوبے کنڑ میں سلطان خیل میں ڈرون حملہ کیا۔

غیر مصدقہ رپورٹس کے مطابق کنڑ حملے میں کالعدم ٹی ٹی پی کے 25 جنگجو ہلاک ہوئے۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ پاکستانی بارڈ کے نزدیک صوبے کنڑ کے اندر کالعدم ٹی ٹی پی کے زیر انتظام غازی کیمپ پر ڈرون حملہ ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: 'ٹی ٹی پی نے بینظیر بھٹو پر ایک اور حملے کا منصوبہ بنا رکھا تھا'

حملے میں ہلاک ہونے والوں کے بارے میں بتایا گیا کہ غازی کمیپ کا سربراہ اور باجوڑ ایجنسی کا کمانڈر گل محمد بھی حملے میں مارا گیا۔

بتایا جارہا ہے کہ خود کش حملہ آواروں کو تربیت دینے والے کمانڈر استاد یاسین بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے مالاکنڈ میں عسکری آپریشن کے پیش نظر ٹی ٹی پی نے اپنا غازی کیمپ افغانستان کے صوبے کنڑ میں منتقل کردیا تھا۔

اس ضمن میں یاد رہے کہ 12 فروری 2018 کو ٹی ٹی پی کے ترجمان اعظم طارق محسود نے اپنے کمانڈر خالد سید سجنا کی امریکی ڈرون حملے میں افغانستان میں ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔

مذکورہ حملے میں کمانڈر خالد سید سجنا کے 9 ساتھی بھی ہلاک ہو گئے تھے۔

خالد سجنا کو کراچی میں نیول بیس پر حملے کے علاوہ 2012 میں خیبر پختونخوا میں بنوں کی ایک جیل توڑ کر طالبان کے 400 جنگجووں کو رہا کرنے میں ملوث قرار دیا جارہا تھا۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں ٹی ٹی پی کی موجودگی کا اعتراف

ٹی ٹی پی محسود گروپ کے کمانڈر کے حوالے سے حکام نے کہا تھا کہ سجنا نہ ہی تعلیم یافتہ اور نہ ہی مذہبی تھا لیکن وہ جنگجو اور افغانستان میں لڑنے کا تجربہ رکھتا تھا۔

دوسری جانب گزشتہ برس 17 نومبر کو افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے واشنگٹن میں پہلی مرتبہ اعتراف کیا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان میں موجود ہے اور افغان حکومت کی شرپسندوں سے جاری لڑائی کے باعث ملک میں پیدا ہونے والی غیر مستحکم صورت حال کا فائدہ اٹھارہے ہیں۔


یہ خبر 8 مارچ 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی