خواتین کا عالمی دن: بلوچستان کی لڑکیاں تعلیم میں پیچھے کیوں؟
بلوچستان کے مختلف علاقوں سے دریافت ہونے والے آثار قدیمہ سے تقریباً 7 ہزار قبلِ مسیح کی آبادی اور ثقافت کے نشانات ملے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سکندرِ اعظم سے پہلے اس خطے پر ایرانیوں کا راج تھا اور اس دور میں اس کا نام 'ماکا' تھا، 325 قبل مسیح میں سکندرِ اعظم بابل پر لشکر کشی کرتے ہوئے بلوچستان کے ساحلی علاقے مکران سے گزرے، جہاں اس وقت ہندوستان کے دراوڑ اور براہوی قبائل آباد تھے۔
کہا جاتا ہے کہ 15 ویں اور 16 ویں صدی کا زمانہ بلوچوں کے عروج کا دور تھا، اس دوران یہاں آباد رند اور لاشاری قبائل کے درمیان خون ریز جھڑپیں ہوتی رہیں، اگرچہ بلوچوں کی اب تک کوئی باقاعدہ مرتب شدہ تاریخ موجود نہیں، مگر سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی لوک داستانوں اور گیتوں کے ذریعے جو روایات ہم تک پہنچی ان میں بلوچ سردار'میر چاکر خان' کو کنگ آرتھر کی طرح مطلق العنان حکمران کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو پورے خطے کے سیاہ و سفید کا مالک تھا۔
چاکر خان کے سب سے بڑے بیٹے 'میر شہداد خان' سے بلوچستان کی ایک مشہور لوک داستان بھی منسوب ہے، جس کے مطابق شہداد خان کی محبوب بیوی 'مہ ناز' پر خاندانی ذرائع سے تہمت لگائی گئی اور جرگے میں اپنی پاک دامنی ثابت کرنے کے لیے اسے آگ کے الاؤ پر سے گزرنا پڑا، اور یہیں سے بلوچستان میں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل، ستی اور آگ پر سے گزارنے کی فرسودہ رسومات شروع ہوئیں، جو 21 ویں صدی میں بھی رائج ہیں، اور صوبائی دارالحکومت سمیت وہ علاقے جہاں علم و آگاہی کے چند در کُھل گئے ہیں وہاں اب بھی حوا کی بیٹی کو اپنے جائزحقوق کے لیے بے پناہ پابندیوں او رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
کوئٹہ کی پیدائش اور یہیں پلنے بڑھنے کے باعث یہ علاقے میرے لیے کبھی اجنبی نہیں رہے، فیملی کے ساتھ سیر و تفریح پر اکثر کوئٹہ سے باہر آنا جانا ہوتا رہتا ہے، مگر جنوری کی اس سرد سی صبح میں عموماً رواں رہنے والی سڑکیں سنسان پڑی تھیں، کوئٹہ، پشین، ژوب اور اطراف کے علاقوں میں دسمبر سے فروری شدید ٹھنڈ اور تعلیمی اداروں میں موسم سرماں کی چھٹیاں ہونے کی وجہ سے زیادہ تر لوگ گرم علاقوں میں رہائش پذیر اپنے رشتہ داروں کے پاس چلے جاتے ہیں، گورنمنٹ گرلز کالج پشین کا وسیع لان خزاں زدہ پتوں سے ڈھکا ہوا تھا، تعلیمی سیشن میں ہر وقت آباد رہنے والی کلاسز میں اس وقت گہری خاموشی کا عالم تھا۔
پرنسپل آفس میں داخل ہوتے ہی میری نظر بڑی بڑی روشن آنکھوں والی ’در بی بی‘ پر پڑی، جس سے ملاقات کے لیے میں نے ڈیڑھ ماہ کا طویل انتظار کیا تھا، اس باہمت لڑکی سے میری محض 20 منٹ کی ملاقات ہوسکی کیونکہ وہ گھر والوں سے کسی دوست کے گھر جانے کا بہانہ کر کے آئی تھی، اسے پرنسپل سے کتابیں اور نوٹس لینے تھے، کیونکہ اسے اپریل میں ہونے والے فرسٹ ایئر کے امتحانات کی تیاری کرنی تھی، اس لڑکی کے تعلیمی اخراجات بھی کالج کی پرنسپل ہی ادا کرتی ہیں۔
’در بی بی‘ سے جو معلومات حاصل ہوئیں، ان کا لب لباب یہ ہے کہ میٹرک میں اچھے نمبروں سے پاس ہونے کے باوجود بھی وہ مزید تعلیم جاری رکھنے سے قاصر تھیں، کیونکہ کالج رہائشی علاقے سے بہت دور تھا، جہاں پہنچنے کے لیے اسے روزانہ 2 بسیں بدلنی پڑتیں، مگر اس کے والدین اور بزرگوں کو یہ گوارا نہیں تھا کہ ان کی لڑکی سڑکوں پر کھڑی بسوں کا انتظار کرے۔