دنیا

میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے، اقوام متحدہ

میانمار حکومت دنیا کو بتارہی کہ روہنگیا مہاجرین کو واپس لے رہے ہیں لیکن فوج انھیں بنگلہ دیش دھکیل رہی ہے، اینڈریوگلیمور

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے مندوب نے میانمار میں مسلم اقلیت کے خلاف ہونے والی کارروائی کے چھ ماہ بعد اپنی رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ میانمار میں 'دہشت گردی اور افلاس کی مہم' کے نام پر ریاست رخائن میں مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل اینڈریو گلیمور نے بنگلہ دیش میں قائم مہاجرین کے کیمپ میں حال ہی میں پینچنے والے مہاجرین سے گفت وشنید کے بعد کہنا تھا کہ 'میانمار میں مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے اور جوکچھ میں نے کوکس بازار میں دیکھا اور سنا ہے اس حوالے سے ہم کوئی اور نتیجہ نہیں نکال سکتے'۔

ان کا کہنا تھا کہ'جرائم کی نوعیت تبدیل ہوچکی ہے جہاں گزشتہ سال دہشت گردی اور تشدد کی مہم کی نوعیت معمولی تھی جو بظاہر پیچھے رہ جانے والے روہنگیا مسلمانوں کو بے گھر کرنے اور بنگلہ دیش جانے پر مجبور کرنے کے لیے ترتیب دی گئی ہے۔

اقوام متحدہ کے مندوب نے مزید کہا کہ نئے آنے والے مہاجرین سرحد سے نکل کر رخائن کے اندرونی علاقوں سے ہوتے ہوئے یہاں پہنچے ہیں۔

یاد رہے کہ اگست 2017 میں میانمار کی ریاست رخائن میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف فوج اور مقامی مذہبی انتہاپسندوں کی جانب سے شروع کی گئیں خونریز کارروائیوں کے نتیجے میں مسلمان بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:میانمار کی فوج کا روہنگیا مسلمانوں کے قتل کا اعتراف

میانمار سے ہجرت کرکے بنگلہ دیش کی سرحد پہنچنے والے روہنگیا مسلمانوں کی تعداد 7 لاکھ کے قریب تھی۔

اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے قتل و غارت اور مسلمان عورت کے ریپ پر تشویش کااظہار کیا گیا تھا جبکہ ترکی کی جانب سے مہاجرین کے لیے خصوصی امداد کی گئی تھی۔

مہاجرین کی واپسی ناقابل تصور

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل اینڈریو گلیمور نے اپنے بیان میں کہا کہ میانمار کی جانب سے چند مہاجرین کو واپس لینے کے اعلان کے باوجود مستقبل قریب میں کسی روہنگیا کے میانمار واپس جانا 'ناقابل تصور' ہے۔

یہ بھی پڑھیں:میانمار،روہنگیا مہاجرین کی واپسی پر تیار ہے،بنگلہ دیشی وزیر کا دعویٰ

گلیمور کا کہنا تھا کہ 'میانمار کی حکومت دنیا کو کہ بتانے میں مصروف ہے کہ وہ واپس آنے والے روہنگیا کو لینے کے لیے تیار ہیں جبکہ اسی دوران اس کی افواج انھیں بنگلہ دیش دھکیلنے میں مصروف ہیں'۔

انھوں نے کہا کہ ؛محفوظ، باعزت اور مستقل واپسی موجودہ حالات میں ناممکن ہے'۔

خیال رہے کہ میانمار کی فوج صحافیوں، سفارت کاروں اور امدادی تنظیموں کو شمالی ریاست رخائن میں داخلے سے روک رہی ہے۔

میانمار کی فوج کا موقف ہے کہ وہ روہنگیا دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کررہی ہے جن کے حوالے سے ان کا دعویٰ ہے کہ روہنگیا دہشت گردوں ںے گزشتہ سال اگست میں پولیس پوسٹ میں حملہ کرکے ایک درجن کے قریب افراد کو ہلاک کیا تھا۔

یاد رہے کہ میانمار کی ریاست رخائن میں گزشتہ برس فوجی بیس پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا تھا۔

میانمار کی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت روہنگیا مسلمانوں کی تھی جبکہ لاکھوں کی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں نے جان بچا کر بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کی تھی جہاں ان کی حالات غذائی قلت کے باعث ابتر ہوگئی تھی تاہم ترکی اور اقوام متحدہ کی جانب سے اقدامات کئے گئے تھے اور مزید مدد کی اپیل کی تھی۔