پاکستان

'سینیٹ الیکشن میں ناکامی کی وجہ متحدہ کے اندرونی اختلافات'

22 اگست 2016 کے بعد جو تبدیلی آئی اس کے بعد اختلافات کی وجہ سے پارٹی کی پوزیشن میں کمی آئی ہے، علی رضا عابدی

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے پی آئی بی گروپ سے تعلق رکھنے والے رہنما علی رضا عابدی نے کہا ہے کہ حالیہ سینیٹ کے انتخابات میں ناکامی کی وجہ بظاہر پارٹی میں ہونے والے اختلافات ہیں۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' میں گفتگو کرتے ہوئے علی رضا عابدی کا کہنا تھا کہ اگرچہ ہمیں سینیٹ کے انتخابات میں صرف ایک ہی سیٹ کی ضرورت تھی، مگر ٹیکنوکریٹ اور خواتین کی نشستوں کے لیے جو دیگر جماعتوں کے ساتھ مشاورت کرنا تھا اُس میں ہم ناکام رہے۔

انہوں نے کہا کہ '22 اگست 2016 کے فیصلے کے بعد الطاف حسین کا باب بند ہوا اور جو تبدیلی آئی اُس سے متحدہ کی ساکھ کو دھچکا ضرور لگا ہے اور آج ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں ایوانوں میں ہماری جماعت کی پوزیشن کمزور ہوچکی ہے'۔

تاہم، ان کا کہنا تھا کہ اگر درست انداز میں پارٹی کی تنظیم نو کی جائے تو یہ معاملات حل ہوسکتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے 5 فروری کو سینیٹ انتخابات کے معاملے پر جو اختلافات اور لفظی جنگ کا ایک سلسلہ شروع ہوا اُس نے اصل معاملات کو ایک جانب کردیا، جن پر زیادہ کام کرنے کی ضرورت تھی۔

علی رضا عابدی کا کہنا تھا کہ 'میں سمجھتا ہوں کہ ناکامی میں متحدہ کا کوئی ایک گروپ نہیں بلکہ پی آئی بی اور بہادرآباد دونوں ہی ذمہ دار ہیں اور اگر یہ اختلافات نہ ہوتے تو شاید انتخابات کے نتائج کچھ مختلف ہوتے اور آج اسی وجہ سے ہمیں اپنے کارکنوں اور ووٹرز کے سامنے شرمندگی بھی محسوس ہورہی ہے'۔

مزید پڑھیں: ’ایم کیو ایم پاکستان برائے فروخت نہیں‘

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ سربراہ کے معاملے پر اختلافات اور کامران ٹیسوری کو نامزد کرنے کے فیصلے کے علاوہ پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے ساتھ ہونے والا ناکام اتحاد بھی اس سب کی وجہ ہے، مگر اصل میں یہ مسائل اُس وقت شروع ہوئے تھے جب 22 اگست کو ایم کیو ایم میں ایک بڑی تبدیلی آئی اور جب بھی کسی جماعت میں انتظامی تبدیلی آئے تو اُس کو ازسرِ نو منتظم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی وہ کام ہے جو درست انداز میں سرانجام نہیں دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس عرصے میں متحدہ میں اختلافات اس حد تک پہنچ گئے جب کچھ جہگوں میں بغاوت کی صورتحال بھی پیدا ہوئی اور اُس کی واحد وجہ یہی تھی کہ 35 سال تک ایک شخص کو سربراہ تسلیم کیا گیا، لیکن جب اچانک یہ تبدیلی آئی تو رابطہ کمیٹی کی سوچ تھی کہ فیصلہ اب کسی ایک فرد کا نہیں ہونا چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سینیٹ انتخابات میں شکست کی وجہ ہارس ٹریڈنگ بھی ہے مگر یہ پارٹی کی بنیاد پر نہیں ہوئی بلکہ ایم پی ایز نے خود ذاتی طور پر اپنی وفاداریاں تبدیل کیں اور ہمیں اس بات کا بھی بہت افسوس ہے۔

علی رضا عابدی کا کہنا تھا کہ اس وجہ کہیں نا کہیں متحدہ کے اندرونی اختلافات ہیں اور جب الطاف حسین پارٹی کو چلا رہے تھے تب کبھی نہیں سنا تھا کہ کسی نے دوسری جماعت کو ووٹ دیا ہو۔

یاد رہے کہ رواں ہفتے وفاق اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) سمیت چاروں صوبوں میں 52 خالی سینیٹ نشستوں پر 133 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا تھا۔

واضح رہے کہ پنجاب کی 12 نشستوں پر 20 امیدوار، سندھ کی 12 نشستوں پر 33 امیدوار، خیبرپختونخوا کی 11 نشستوں پر 26 امیدوار، بلوچستان کی 11 نشستوں پر 25 امیدوار، فاٹا کی4 نشستوں پر 25 امیدوار اور وفاق سے 2 نشستوں پر 5 امیدوارحصہ لیا تھا۔

سینیٹ انتخابات 2018 کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ امیدواروں نے برتری حاصل کرلی، سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کو واضح برتری حاصل ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ مولانا سمیع الحق کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

سینیٹ کے حالیہ انتخابات کے بعد نئے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے حوالے سے ملک کی اہم سیاسی جماعتوں نے جوڑ توڑ کا آغاز ہوگیا ہے۔

واضح رہے کہ پی پی پی اور پی ٹی آئی ایوان بالا کے چیئرمین سینیٹ کے لیے اپنے اُمیدوار کو منتخب کروانے کے لیے بلوچستان کے 6 آزاد نو منتخب سینیٹرز کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

ایم کیو ایم پاکستان اختلافات

واضح رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی کے درمیان اختلافات 5 فروری کو اس وقت شروع ہوئے تھے جب فاروق ستار کی جانب سے سینیٹ انتخابات کے لیے کامران ٹیسوری کا نام سامنے آیا تھا، جس کی رابطہ کمیٹی نے مخالفت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ایم کیو ایم کنوینر شپ معاملہ: فاروق ستار نے ای سی پی کا دائرہ اختیار چیلنج کردیا

بعدازاں رابطہ کمیٹی اور فاروق ستار کے درمیان کئی مرتبہ مذاکرات کی کوشش کی گئی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئی اور ڈاکٹر فاروق ستار اور ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی اور 6 دن تک جاری رہنے والے اس تنازعے کے بعد رابطہ کمیٹی نے دو تہائی اکثریت سے فاروق ستار کو کنوینئر کے عہدے سے ہٹا کر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو نیا کنوینئر مقرر کردیا تھا۔

بعد ازاں 18 فروری کو ایم کیو ایم پاکستان فاروق ستار گروپ کی جانب سے انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں کارکنان کی رائے سے فاروق ستار ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر منتخب ہوئے تھے۔

تاہم بہادر آباد گروپ کی جانب سے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیا گیا تھا اور ڈاکٹر فاروق ستار کو کنوینر ماننے سے انکار کردیا تھا۔

خیال رہے کہ 28 فروری کو الیکشن کمیشن میں سماعت کے دوران ڈاکٹر فاروق ستار کے وکیل نے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی درخواست پر جواب جمع کروانے کے لیے مہلت مانگی تھی۔