دسترخوان

معدے کی گرمی دور کرنے میں مددگار ٹوٹکے

معدے کی گرمی کو کنٹرول کیا جانا ضروری ہوتا ہے ورنہ صحت کے لیے پیچیدہ مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

بدہضمی، معدے میں ورم یا دیگر مسائل کا سامنا سب کو ہی ہوتا ہے اور ایسا عام طور پر معدے کی گرمی کا نتیجہ ہوتا ہے، جس کی وجہ زیادہ مصالحے دار کھانے، تمباکو نوشی یا الکحل، رات گئے منہ چلانے کی عادت وغیرہ ہوسکتی ہے۔

معدے کی گرمی یا اضافی درجہ حرارت زیادہ تیز نظام ہاضمہ کا نتیجہ ہوتا ہے اور اسے کنٹرول کیا جانا ضروری ہوتا ہے ورنہ صحت کے لیے پیچیدہ مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

ویسے تو اس مسئلے کی کوئی واضح وجہ نہیں مگر کچھ چیزیں ضرور اس کا خطرہ بڑھاسکتی ہیں جیسے مصالحے دار غذائیں، زیادہ کھانا، رات گئے منہ چلانے کی عادت، زیادہ درد کش ادویات لینا، سست طرز زندگی اور السر وغیرہ۔

مزید پڑھیں : معدے میں تیزابیت کا علاج آپ کے کچن میں

اچھی بات یہ ہے کہ گھر میں بھی کچھ غذاﺅں سے اس کا علاج ممکن ہے یعنی معدے کی گرمی کو کم کیا جاسکتا ہے، تاہم اگر مسئلہ برقرار رہے تو ڈاکٹر سے رجوع کیا جانا چاہئے۔

یہاں آپ ان غذاﺅں کے بارے میں جان سکیں گے جو معدے کی گرمی میں کمی لانے میں مدد دے سکتی ہیں۔

دہی

دہی معدے میں صحت کے لیے فائدہ مند بیکٹریا کی مقدار بڑھانے میں مدد دینے والی غذا ہے جس سے معدے کی گرمی کے اخراج میں مدد ملتی ہے جبکہ نظام ہاضمہ اور دیگر افعال بھی بہتر ہوتے ہیں۔

ٹھنڈا دودھ

ٹھنڈا دودھ بھی معدے کے درجہ حرارت کو کم کرتا ہے جبکہ معدے میں تیزابیت کو بھی کم کرنے میں مددگار ہے، اس کے سکون پہنچانے والی خصوصیت معدے کی گرمی سے ہونے والی بے آرامی کو دور کرتی ہے۔ ایک گلاس ٹھنڈا دودھ پینا اس مسئلے سے نجات کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔

ابلے ہوئے چاول

معدے میں گرمی کی ویسے تو اکثر علامات سامنے نہیں آتیں ماسوائے بے آرامی کے، ایسا ہونے پر ابلے ہوئے سفید چاول بھی معدے کو ٹھنڈک پہنچا سکتے ہیں اور پانی کی مقدار بڑھاتے ہیں، دہی کے ساتھ سادے چاول کھانا اس اثر کو زیادہ تیز کردیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : نظام ہاضمہ کو مضبوط بنانے والی عادات

پودینہ

پودینہ بھی معدے کی گرمی دور کرنے میں مدد دے سکتا ہے جس کی وجہ اس کی ٹھنڈی تاثیر ہے۔ ایک کپ پودینے کا پانی یا چائے معدے میں اضافی تیزابیت کی سطح میں بھی کمی لانے کے لیے کافی ہے۔

زیادہ پانی والی غذائیں

سیب، آڑو، تربوز اور کھیرا وغیرہ کھائیں جبکہ کھٹی غذاﺅں سے دور رہیں جو کہ تیزابیت کو بڑھا کر معدے کی گرمی میں اضافہ کرسکتی ہیں۔

زیادہ پانی

زیادہ مقدار میں پانی پینا فوری طور پر معدے کی گرمی میں کمی لاسکتا ہے، پانی اضافی گرمی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے زہریلے اثرات کے اخراج میں بھی مدد دیتا ہے جبکہ نظام ہاضمہ کو صحت مند بناتا ہے۔

ناریل کا پانی

ناریل کا پانی معدے میں تیزابیت کی سطح کو معمول میں لانے میں مدد دیتا ہے جس سے معدے کی لائننگ کو بھی ٹھنڈک ملتی ہے اور حرارت کے اخراج میں کمی آتی ہے جبکہ حمل کے دوران بھی اس کا استعمال سینے کی جلن دور کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

سیب کا سرکہ

ایک گلاس پانی میں 2 سے 3 چائے کے چمچ سیب کے سرکے اور ایک کھانے کے چمچ شہد کو مکس کریں اور اس مکسچر کو پی لیں۔ یہ مشروب معدے میں جلن کے دوران پی لیں، افاقہ نہ ہو تو چند گھنٹوں بعد ایک گلاس اور پی لیں۔

لیموں کا عرق

معدے میں جلن کی تکلیف اکثر ہوتی ہو تو ایک کھانے کا چمچ لیموں کا عرق ایک گلاس گرم پانی میں ملائیں اور اسے صبح خالی پیٹ پی لیں۔ لیموں کا عرق جلن میں نمایاں حد تک کمی لاتا ہے جبکہ معدے کی تیزابیت کو متوازن کرتے ہیں۔

ایلو ویرا جیل

ایلو ویرا جیل جلاب جیسی خصوصیات رکھتا ہے جو نہ صرف آنتوں میں پانی کی مقدار بڑھاتا ہے بلکہ فضلے کی حرکت کو بھی آسان کرتا ہے۔ معدے کی جلن پر قابو پانے کے لیے آدھا کپ ایلو ویرا جیل کھانے سے پہلے پی لیں۔ اسے معدے میں جلن یا تیزابیت کی شکایت پر ضرورت پڑنے پر پی لیں۔

سبز چائے

ایک کپ گرم پانی میں سبز چائے کا ٹی بیگ چند منٹ کے لیے ڈبو کر رکھیں اور پھر اسے نکال کر پی لیں، دن بھر میں ایک یا 2 کپ سبز چائے معدے میں جلن کو دور رکھنے کے لیے کافی ہے، اس چائے کی ورم کش خصوصیات غذائی نالی میں جلن کے احساس کو کم کرتی ہے۔

سیب/کیلا/ پپیتا

معدے میں جلن کی شکایت ہو تو اوپر درج کوئی بھی پھل کھالیں جو فوری ریلیف فراہم کرے گا۔

ادرک

ادرک کے تین ٹکڑے اور دو کپ پانی لیں، ادرک کے ٹکڑوں کو مزید کاٹ لیں اور پانی میں آدھے گھنٹے کے لیے بھگودیں، اس کے بعد چھان لیں اور پھر ذائقے کے لیے تھوڑا سا شہد مکس کرکے پی لیں۔

بادام

بادام معدے میں موجود ایسڈز کو متوازن کرتا ہے جس کی وجہ اس میں موجود کیلشیئم کی موجودگی ہے، جس سے سینے یا معدے میں جلن سے راحت اور روک تھام میں مدد ملتی ہے، اس کے لیے کھانے کے فوری بعد پانچ سے 6 بادام کھانا عادت بنائیں۔

نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔