پاکستان

’عدالت حکومت کو قانون سازی کرنے کی ہدایات جاری کر سکتی ہے‘

مذہب اور آئین میں اقلیتوں کو حقوق حاصل ہیں, احمدیوں کی بطور غیر مسلم علیحدہ شناخت ان کے تحفظ کیلئے ضروری ہے، اکرم شیخ

اسلام آباد ہائی کورٹ میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے عدالت عالیہ کو بتایا ہے کہ آئینی عدالت حکومت کو قانون سازی کرنے کی ہدایات جاری کر سکتی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے مولانا اللہ وسایا کی جانب سے دائر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے خلاف درخواست پر سماعت۔

درخواست گزار کے وکیل حافظ عرفات ایڈووکیٹ جبکہ شیخ اکرم ایڈووکیٹ عدالتی معاون کی حیثیت سے پیش ہوئے۔

یاد رہے کہ عدالت عالیہ نے شیخ اکرم ایڈووکیٹ کے علاوہ علامہ ساجد الرحمان، محسن نقوی، مولانا اللہ وسایا اور پروفیسر حسن مدنی کو بھی عدالت کی معاونت کے لیے طلب کیا تھا۔

اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے سماعت کے دوران کہا کہ احمدیوں کے حوالے سے حکومتی رپورٹس میں تشویشناک انکشافات ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ میں راجا ظفرالحق کمیٹی کی رپورٹ پیش

انہوں نے مزید کہا کہ 10 ہزار سے زیادہ افراد نے شناختی کارڈ میں مسلمان سے احمدی کا مذہب اپنایا اور زیادہ تر افراد نے سرکاری ملازمت کے لیے بطور مسلمان شناختی کارڈ حاصل کیا جبکہ 60 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ کے بعد ان لوگوں نے دوبارہ احمدی مذہب اختیار کیا۔

انہوں نے کہا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ان میں سے 6 ہزار احمدی بیرون ملک چلے گئے جبکہ حکومت سے ان افراد کی ٹریول ہسٹری مانگی ہے۔

اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے کہا کہ آئینی عدالت حکومت کو قانون سازی کرنے کی ہدایات جاری کر سکتی ہے، یہاں انہوں نے ذکر کیا کہ سعودی حکومت کی جانب سے حرم شریف میں مخصوص عناصر کے داخلہ پر پابندی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ احمدیوں کو شعائر اسلام اپنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ احمدیوں کے اسلامی شعائر اپنانے سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہونے کا اندیشہ ہے۔

اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے کہا کہ مذہب اور آئین میں اقلیتوں کو حقوق حاصل ہیں اور احمدیوں کی بطور غیر مسلم علیحدہ شناخت ان کے اقلیتی حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شناختی کارڈ پر مذہب تبدیل کرنے والے احمدیوں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے، جیسا کہ شناختی کارڈ بنواتے وقت عقیدہ ختم نبوت کا حلف نامہ لینا ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ کا راجا ظفرالحق رپورٹ پرحکومت کو الٹی میٹم

خیال رہے کہ عدالت عالیہ نے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو 6 مارچ تک احمدی مذہب اختیار کرنے والے افراد کی ٹریول ہسٹری پیش کرنے کا حکم دے رکھا ہے جبکہ ناردار نے پاکستان میں رجسٹرڈ احمدیوں اور مسلمان سے احمدی مذہب اختیار کرنے والوں کی تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کی تھی۔

واضح رہے کہ عدالت میں پیش کی جانے والی نادرا رپورٹ کے مطابق ملک میں رجسٹر احمدیوں کی تعداد 1 لاکھ 67 ہزار 473 ہے، اس میں مزید بتایا گیا کہ 10 ہزار 205 افراد سے مسلمان سے احمدی مذہب اختیار کیا۔

ڈی جی نادرا نے عدالت میں پیش ہوکر بتایا تھا کہ اب عدالت کی اجازت کے بغیر مذہب تبدیلی پر پابندی لگادی ہے۔

بعد ازاں کیس کی سماعت آئندہ ہفتے 5 فروری تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

20 فروری 2018 کو حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں الیکشن ایکٹ میں ختم نبوت سے متعلق ترمیم پر راجا ظفر الحق کمیٹی کی سربمہر رپورٹ عدالت میں پیش کی تھی۔

اس سماعت میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ احمدیوں کو پاکستان میں رہنا ہے تو شہری بن کر رہیں اسلام پر نقب نہ لگائیں، میں کوئی فتوٰی نہیں دے رہا پاکستان کا آئین احمدیوں کو مسلمان نہیں مانتا جبکہ ختم نبوت کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔

بعد ازاں عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ختم نبوت سے متعلق درخواست پر روزانہ کی بنیاد پر سماعت کریں گے۔

الیکشن ایکٹ 2017

خیال رہے کہ 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کو نااہل قرار دیئے جانے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مسلم لیگ (ن) کو پارٹی کا نیا صدر منتخب کرکے کمیشن کو آگاہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔

الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (ن) کو نیا پارٹی صدر منتخب کرنے کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے تحت نااہل شخص پارٹی عہدہ نہیں رکھ سکتا۔

مزید پڑھیں: فیض آباد دھرنا کیس: راجہ ظفر الحق کمیٹی رپورٹ پیش نہ کرنے پر عدالت برہم

نواز شریف کی بطور پارٹی صدر نااہلی کے بعد حکمراں جماعت کی مرکزی مجلس عاملہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما سینیٹر سردار یعقوب کو پارٹی کا قائم مقام صدر منتخب کیا گیا تھا۔

حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کو نواز شریف کو دوبارہ پارٹی کا صدر منتخب کرنے کے سلسلے میں ایک رکاوٹ کا سامنا تھا، جس کے لیے انتخابی اصلاحاتی بل 2017 قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا، جس کے تحت نااہل شخص بھی پارٹی کا صدر منتخب ہوسکتا ہے۔

قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد اس بل کو سینیٹ میں پیش کیا گیا تو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر اعتزاز احسن نے ترمیم پیش کی کہ جو شخص اسمبلی کا رکن بننے کا اہل نہ ہو وہ پارٹی کا سربراہ بھی نہیں بن سکتا جس کے بعد بل پر ووٹنگ ہوئی۔

حکومت نے محض ایک ووٹ کے فرق سے الیکشن بل کی شق 203 میں ترمیم مسترد کرانے میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کی پارٹی صدر بننے کی راہ ہموار کردی۔

مذکورہ بل کی منظوری کے بعد آرٹیکل 62 اور 63 کی وجہ سے نااہل ہونے والا شخص بھی سیاسی جماعت کا سربراہ بننے کا اہل ہوگا۔

دوسری جانب سابق وزیر اعظم نواز شریف کو باآسانی مسلم لیگ (ن) کا دوبارہ صدر منتخب کرنے لیے پارٹی آئین میں بھی ترمیم کردی گئی اور مسلم لیگ (ن) کی مرکزی جنرل کونسل نے پارٹی آئین میں ترمیم کی منظوری دیتے ہوئے دفعہ 120 کو ختم کردیا، جس کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف ایک بار پھر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بلامقابلہ صدر منتخب ہوگئے تھے۔

نواز شریف کے پارٹی سربراہ بننے کو ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا جس پر کچھ سماعتوں کے بعد عدالت عظمیٰ نے 21 فروری 2018 کو انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ سنایا تھا، جس کے نتیجے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف مسلم لیگ (ن) کی صدارت کے لیے بھی نااہل ہوگئے تھے۔

چیف جسٹس نے کیس کا مختصر فیصلہ پڑھ کر سناتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا نہ اترنے والا یا نااہل شخص پارٹی صدارت کا عہدہ نہیں رکھ سکتا جبکہ اس فیصلے کا اطلاق اس وقت سے ہوگا جب اسے نااہل قرار دیا گیا ہو۔

انہوں نے کہا تھا کہ آئین پاکستان میں درج ہے کہ حاکمیت اللہ کی ہے اور عوام کے منتخب نمائندے اللہ کی جانب سے دیا گیا اختیار امانت سمجھ کر استعمال کرنے کے پابند ہیں، کسی بھی سیاسی جماعت کا سربراہ بااختیار ہوتا ہے اور سیاسی جماعتیں ملک کی حکومت چلاتی ہیں، پارلیمنٹ کے امور چلانے کے لیے پارلیمنٹیرینز کا اعلیٰ اخلاق کا ہونا ضروری ہے، آئین پاکستان بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرتا ہے، ایسوسی ایشن یا پارٹی بنانا ہر شخص کا حق ہے، لیکن اس کے لیے اخلاقیات پر پورا اترنا بھی ضروری ہے۔

فیصلے میں نواز شریف کی نااہلی کے بعد بطور پارٹی صدر اٹھائے گئے تمام اقدامات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ نواز شریف فیصلے کے بعد جب سے پارٹی صدر بنے تب سے نااہل سمجھے جائیں گے۔

یاد رہے کہ اس فیصلے کے بعد نواز شریف کے بطور پارٹی صدر سینیٹ انتخابات کے امیدواروں کی نامزدگی بھی کالعدم ہوگئی تھی اور مسلم لیگ (ن) کے تمام امیدواروں کے ٹکٹ منسوخ ہوگئے تھے۔