پاکستان

ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ کا عہدہ تاحال تنازعات کا شکار

الیکشن کمیشن نے خالد مقبول اور فاروق ستار کو کنوینر ڈیکلئیر کرنے سے روکنے کی فروخ نسیم کی استدعا مسترد کردی۔
|

اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما فاروق ستار اور خالد مقبول صدیقی کی پارٹی کنوینرشپ سے متعلق فیصلہ تاحال نہیں ہوسکا جبکہ الیکشن کمیشن نے خالد مقبول اور فاروق ستار کو کنوینر ڈیکلئیر کرنے سے روکنے کی استدعا مسترد کردی۔

ایم کیو ایم کی کنوینرشپ کے معاملے پر الیکشن کمیشن میں چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں 4 رکنی کمیشن نے سماعت کی۔

اس موقع پر خالد مقبول صدیقی کے وکیل فروغ نسیم نے اپنے دلائل میں کہا کہ ایم کیو ایم کے انٹرا پارٹی الیکشن اکتوبر 2016 میں ہوئے، 22 اگست کے واقعے کے بعد نئے انٹرا پارٹی انتخابات کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کے نتائج آج بھی ایم کیو ایم کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔

مزید پڑھیں: ایم کیو ایم کی کنوینیئرشپ کا معاملہ: فاروق ستار کو مہلت مل گئی

رکن الیکشن کمیشن ارشاد قیصر نے استفسار کیا کہ سینیٹ امیدواروں کی فہرست میں ایم کیو ایم کے 16 امیدوار کیسے شامل ہیں جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ سینیٹ الیکشن کیلئے رابطہ کمیٹی کے اختیار دینے پر خالد مقبول صدیقی نے ٹکٹ جاری کیے اور خالد مقبول صدیقی نے 9 لوگوں کے نام واپس لیے لیکن انہیں بھی فہرست میں شامل کیا گیا۔

فروغ نسیم نے کہا کہ پارٹی کنوینر ایک عہدہ ہے، کنوینر کو ہٹانے کے لیے انٹرا پارٹی انتخابات ضروری نہیں، یہ طے ہو جائے کہ رابطہ کمیٹی کے ممبر کون تھے تو دو تہائی اکثریت واضح ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ رابطہ کمیٹی کی 35 ارکان کی لسٹ ہے جس پر فاروق ستار کے دستخط موجود ہیں، نومبر 2016 میں جو لسٹ بنی اس میں وسیم اختر اور نعیم صدیقی کا نام نہیں تھا، رابطہ کمیٹی نے اکثریت کے فیصلے سے وسیم اختر اور نعیم صدیقی کو ممبر بنایا اور جس اجلاس میں دونوں کے نام شامل ہوئے اس کی صدارت فاروق ستار نے کی تھی۔

کمیشن کے رکن ارشاد قیصر نے استفسار کیا کہ ایم کیو ایم کا دفتر کون سا ہے جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ ریکارڈ میں بہادر آباد آفس ایم کیو ایم کا دفتر ہے جبکہ پی آئی بی میں فاروق ستار کا گھر ہے۔

اس پر چیف الیکشن کمشنر سردار رضا نے کہا کہ ممبران نے مختلف صوبوں میں جانا ہے ان کی فلائٹس ہیں اس کیس کا اب کیا کریں، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ آپ فاروق ستار اور خالد مقبول کو پارٹی لیڈر شپ کا دعوی کرنے سے منع کر سکتے ہیں، سینیٹ الیکشن کل ہے اس وقت جو کنفیوژن ہے اس کو ختم کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: ایم کیو ایم کنوینر شپ معاملہ: فاروق ستار نے ای سی پی کا دائرہ اختیار چیلنج کردیا

اس موقع پر فاروق ستار کے وکیل بابر ستار نے کہا کہ الیکشن کمیشن دائرہ اختیار کے خلاف درخواست پر فیصلے کے بغیر کیسے عبوری ریلیف دے سکتا ہے۔

جس کے بعد الیکشن کمیشن نے فروغ نسیم کی جانب سے پارٹی ہیڈ سے متعلق عبوری ریلیف کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دائرہ اختیار چیلنج ہونے کی وجہ سےعبوری ریلیف نہیں دیا جا سکتا۔

بعد ازاں الیکشن کمیشن نے کیس کی سماعت 7 مارچ تک کے لیے ملتوی کر دی۔

گزشتہ روز متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سابق سربراہ اور رکنِ قومی اسمبلی ڈاکٹر فاروق ستار نے پارٹی کنوینر شپ کے معاملے میں الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو چیلنج کر دیا تھا۔

اس سے قبل 27 فروری کو ایم کیو ایم پاکستان کی کنوینیئرشپ کے معاملے پر الیکشن کمیشن میں بہادر آباد گروپ کے کنوینیئر خالد مقبول صدیقی کی درخواست پر سماعت کے دوران فاروق ستار کے وکیل نے جواب جمع کرانے کے لیے مہلت طلب کی تھی۔

ایم کیو ایم پاکستان اختلافات

واضح رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی کے درمیان اختلافات 5 فروری کو اس وقت شروع ہوئے تھے جب فاروق ستار کی جانب سے سینیٹ انتخابات کے لیے کامران ٹیسوری کا نام سامنے آیا تھا، جس کی رابطہ کمیٹی نے مخالفت کی تھی۔

بعدازاں رابطہ کمیٹی اور فاروق ستار کے درمیان کئی مرتبہ مذاکرات کی کوشش کی گئی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئی اور ڈاکٹر فاروق ستار اور ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی اور 6 دن تک جاری رہنے والے اس تنازعے کے بعد رابطہ کمیٹی نے دو تہائی اکثریت سے فاروق ستار کو کنوینئر کے عہدے سے ہٹا کر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو نیا کنوینئر مقرر کردیا تھا۔

بعد ازاں 18 فروری کو ایم کیو ایم پاکستان فاروق ستار گروپ کی جانب سے انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں کارکنان کی رائے سے فاروق ستار ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر منتخب ہوئے تھے۔

تاہم بہادر آباد گروپ کی جانب سے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیا گیا تھا اور ڈاکٹر فاروق ستار کو کنوینر ماننے سے انکار کردیا تھا۔

خیال رہے کہ 28 فروری کو الیکشن کمیشن میں سماعت کے دوران ڈاکٹر فاروق ستار کے وکیل نے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی درخواست پر جواب جمع کروانے کے لیے مہلت مانگی تھی۔