سینیٹ انتخابات میں کب، کیا اور کیسے ہوتا ہے؟
مستقبل کے ایوانِ بالا میں ممکنہ پارٹی پوزیشن
مارچ 2018ء کے بعد سینیٹ کے 104 نشستوں کے ایوان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے جیتنے کی صورت میں 36 ارکان کے ساتھ پہلے، پاکستان پیپلز پارٹی 16 ارکان کے ساتھ دوسرے جبکہ پاکستان تحریک انصاف 12 ارکان کے ساتھ تیسرے نمبر پر نظر آتی ہے۔
آئندہ ایوانِ بالا میں آزاد سینیٹرز کی تعداد 10، ایم کیوایم کے سینیٹرز کی تعداد 8، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹرز کی تعداد 6 جبکہ نیشنل پارٹی کے سینیٹرز کی تعداد بھی 6 ہوسکتی ہے۔
مستقبل کے سینیٹ میں جمعیت علمائے اسلام 4 جبکہ جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی 2، 2 نشستیں حاصل کرسکتی ہیں۔
اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کی روشنی میں پاکستان مسلم لیگ (ق)، پاکستان مسلم لیگ فنکشنل اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کی نمائندگی سینیٹ سے ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
سینیٹ انتخابات کی ووٹر فہرست
سینیٹ انتخابات کے لیے حتمی ووٹر فہرست تیار کرلی گئی ہے۔ اس وقت قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی 1070 نشستوں میں سے 9 نشستیں خالی ہیں۔ قومی اسمبلی کی 3، پنجاب اسمبلی کی 4 جبکہ سندھ اور خیبر پختونخوا اسمبلی کی ایک، ایک نشست خالی ہے۔ یوں سینیٹ انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 1061 ارکان 52 سینیٹرز کا انتخاب کریں گے۔
قومی اسمبلی کے 339 ارکان اسلام آباد کے 2 سینیٹرز کا انتخاب کریں گے جبکہ پنجاب اسمبلی کے 367 ارکان پنجاب کے 12 سینیٹرز کا انتخاب کریں گے۔ سندھ اسمبلی کے 167 ارکان 12 سینیٹرز کو منتخب کریں گے جبکہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے 123 ارکان 11 سینیٹرز کو منتخب کریں گے۔ بلوچستان اسمبلی کے 65 ارکان 11 سینیٹرز کا انتخاب کریں گے جبکہ قومی اسمبلی کے 11 فاٹا ارکان 4 فاٹا سینیٹرز کا انتخاب کریں گے۔
پنجاب اور سندھ میں 7، 7 جنرل نشستوں، خواتین اور ٹیکنوکریٹ کی 2، 2 نشستوں اور ایک اقلیتی نشست پر انتخاب ہوگا۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں 7،7 جنرل نشستوں جبکہ خواتین اور ٹیکنوکریٹ کی 2، 2 نشستوں پر انتخاب ہوگا۔ فاٹا میں 4 جنرل نشستوں جبکہ اسلام آباد میں ایک جنرل نشست اور ایک ٹیکنوکریٹ کی نشست کے لیے انتخاب ہوگا۔
کاغذات نامزدگی فارمز میں ارکانِ پارلیمنٹ کے لیے کھلی چُھٹی
پارلیمنٹ کا رُکن بننے کے لیے تمام اہم شرائط ختم جبکہ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی میں بڑی تبدیلیاں کردی گئی ہیں۔ بینک ڈیفالٹرز، ٹیکس ادا نہ کرنے والے اور فوجداری مقدمات کا سامنا کرنے والے بھی سینیٹ اور قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔
الیکشن کمیشن سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق سینیٹ اور قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے والے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی میں ڈرامائی تبدیلیاں کردی گئی ہیں۔ سینیٹ الیکشن کے لیے ترتیب دیے گئے کاغذات نامزدگی میں انکشاف ہوا ہے کہ عوامی نمائندوں کو رُکنِ پارلیمنٹ بننے کے لیے کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔
بینکوں سے قرضے معاف کرانے والے بھی حالیہ سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہوں گے۔ گیس، بجلی اور ٹیلی فون بلز ڈیفالٹر بھی سینیٹ انتخابات میں حصہ لے سکیں گے جبکہ فوجداری مقدمات کا سامنا کرنے والے اور ٹیکس چور بھی انتخاب لڑسکتے ہیں۔
موجودہ پارلیمنٹ کی جانب سے بنائے گئے 2017ء کے انتخابی اصلاحات ایکٹ میں انتخابی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی میں کئی بڑی تبدیلیاں کردی گئی ہیں۔ کاغذات نامزدگی فارم سے قرضہ معافی اور یوٹیلٹی بلز ڈیفالٹر کا خانہ ختم کردیا گیا ہے۔ فوجداری مقدمات، نیشنل ٹیکس نمبر اور ٹیکس ادائیگی کی تفصیلات بھی ختم کردی گئیں ہیں۔ امیدواروں کی تعلیمی قابلیت، ذریعہ معاش اور نیشنل ٹیکس نمبر کا خانہ بھی ختم کردیا گیا ہے۔
مزید پڑھیے: سینیٹ انتخابات: ’پارلیمنٹ کے باہر ایف سی اور رینجرز تعینات کی جائے گی‘
ماضی میں سینیٹ انتخابات کے کاغذات نامزدگی میں مذکورہ بالا تمام شرائط شامل تھیں، اہم ترین بات یہ ہے کہ کاغذات نامزدگی میں تبدیلیاں، پارلیمنٹ میں موجود ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے مِل کر کی ہیں۔
ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سینیٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابی امیدواروں کے لیے ایک ہی طرح کے کاغذات نامزدگی ترتیب دیے گئے ہیں۔ ماضی میں سینیٹ انتخابات کے امیدواروں اور عام انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کے لیے علیحدہ علیحدہ کاغذات نامزدگی بنائے گئے تھے۔
پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات نے 3 برسوں کی محنت کے بعد انتخابی اصلاحات کا ایکٹ تیار کیا۔ ماضی میں انتخابی ایکٹ کی روشنی میں الیکشن کمیشن انتخابی قوانین اور قواعد و ضوابط ترتیب دیتا تھا جس میں انتخابی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی سمیت مختلف انتخابی فارمز کا بنانا بھی شامل تھا۔
پاکستان کی انتخابی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ انتخابی ایکٹ کے بعد انتخابی قوانین اور انتخابی فارمز بھی پارلیمنٹ نے بنائے ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی منظوری کے بعد یہ انتخابی فارمز اور انتخابی قوانین پر مشتمل مذکورہ انتخابی صلاحات ایکٹ 2017ء الیکشن کمیشن کو بھجوا دیا گیا تھا۔
پارلیمنٹ کی جانب سے نئے بنائے گئے کاغذات نامزدگی کا تجربہ پہلی مرتبہ 2018ء کے سینیٹ انتخابات میں کیا جارہا ہے۔ ان کاغذات نامزدگی کو استعمال کرتے ہوئے 3 مارچ کو سینیٹ کے 52 نئے اراکین کا انتخاب کیا جائے گا۔
ملک میں جولائی 2018ء میں ہونے والے آئندہ عام انتخابات میں بھی یہی کاغذات نامزدگی استعمال کیے جائیں گے۔ انتخابی ماہرین کی رائے میں، نئے کاغذات نامزدگی میں پارلیمنٹ کا رکن بننے کی اہم ترین شرائط کو ختم کردینے سے کئی اہم سوالات پیدا ہوگئے ہیں۔
سیاسی ماہرین کا مؤقف ہے کہ نئے کاغذات نامزدگی میں ختمِ نبوت سے متعلق حلف نامے میں تبدیلی سے میڈیا میں بحث کا رُخ صرف اسی عمل کی جانب مرکوز ہوگیا تھا، حالانکہ اس دوران انتخابی فارمز میں انتہائی اہم نوعیت کی کئی بنیادی تبدیلیاں بھی کردی گئی ہیں۔