شام کب تک جلتا رہے گا؟
دمشق، حلب، ادلب اور اب مشرقی غوطہ!
سرزمینِ شام اِدھر ایک قیامت صغریٰ سے باہر نکلتی ہی ہے کہ اُدھر ایک نئی شبِ ظُلمت کا اندھیرا اسے آ گھیرتا ہے۔ جنوری 2011ء سے فروری 2018ء تک 7 سال ہوتے ہیں، اس دوران شام کی گلیوں، محلوں، بازاروں، کھیتوں، صحراؤں اور پہاڑوں میں کون سی جگہ ہے کہ جہاں جنگ نہیں ہوئی؟
اس کشت و خون میں اب تک کا حاصل یہ ہے کہ لاکھوں لوگ غریب الوطن ہوئے اور ہزاروں بے نام راہوں میں مارے گئے۔ کل ایک عربی ٹوئیٹ نظر سے گزری تو دل ناشاد درد سے بھر آیا، لکھا تھا کہ دیکھنا پڑے گا کہ دجلہ اور فرات میں زیادہ پانی بہہ رہا ہے یا شام کے گلی کوچوں میں اُمت مرحومہ کا خون؟
شام سے آنے والی تازہ اطلاعات کے مطابق صرف گزشتہ ایک ہفتے میں مشرقی غوطہ کے مختلف علاقوں میں 700 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ زخمیوں میں سیکڑوں ایسے ہیں جنہیں اب زندگی بھر جسمانی معذوری کا سامنا رہے گا۔ اِس لڑائی سے سب سے زیادہ متاثر ننھے معصوم پھول اور کلیاں ہوئی ہیں، سیکڑوں بن کھلے مرجھا گئیں اور ہزاروں بے گھر و بے اماں ہیں۔
الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق شہری دفاع کی تنظیم ’وائٹ ہیلمٹ‘ کا کہنا ہے کہ مرنے والے بچوں کے طبّی معائنے میں کیمیائی مادّوں کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں، یوں یہ تیسرا موقع ہے جب بشار حکومت پر کیمیائی حملوں کا سنگین الزام لگا ہے۔ اس سے قبل دمشق، حلب اور ادلب کے معرکوں میں بھی ایسے سخت الزامات عائد کیے گئے تھے۔ دوسری طرف خود اقوام متحدہ کی ایک تحقیقاتی ٹیم بھی 2013ء میں مشرقی غوطہ ہی میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تصدیق کرچکی ہے۔
پڑھیے: شام: مشرقی غوطہ میں شدید بمباری، ہلاکتیں 400 سے تجاوز کر گئیں
مشرقی غوطہ صوبہ ریف میں دارلحکومت دمشق سے صرف 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک نیم دیہی علاقہ ہے جو مختلف چھوٹے بڑے قصبات پر مشتمل ہے۔ یہاں کی موجودہ آبادی تقریباً 4 لاکھ نفوس پر مبنی ہے، جس میں نصف سے زائد تعداد 18 سال سے کم عمر ہیں۔ یہ علاقہ دراصل ایک صحرائی خطے میں واقع ہے جسے دریائے بردی کا شفاف پانی نخلستان میں تبدیل کرتا ہے۔
دارالحکومت سے قُربت، پانی کی فراوانی، مٹی کی زرخیزی اور سرسبز و شادابی کبھی اِس علاقے کا مان تھا مگر اب یہی باتیں مقامی آبادی کے لیے سوہان روح بن چکی ہے۔ لوگ اُس زمانے کو بھی بھول چکے ہیں جب یہاں کے ماحول میں گندم کی مہک ہوا کرتی تھی، اب تو صرف بارود کی بو، دھماکوں کی گونج اور ملبوں کا ڈھیر ہے۔