نقطہ نظر

پختونوں کے مسائل کو قومی میڈیا میں جگہ کیوں نہیں ملتی؟

فاٹا اور پختون مسائل سے متعلق خبریں دلچسپی پیدا نہیں کرتیں، چنانچہ کارپوریٹ نیوز چینلز کو اس سے ریٹنگز حاصل نہیں ہوسکتی

مزید پڑھیے: ڈان انویسٹی گیشن : راؤ انوار اور کراچی میں ’ماورائے عدالت قتل‘

فاٹا نوجوان جرگہ اپنے چند مقاصد کے حصول میں کامیاب رہا ہے۔ ان کی مہم کی وجہ سے پارلیمنٹ میں بالآخر اعلیٰ عدالتوں کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھانے پر مثبت ووٹنگ ہوئی۔ پختون لانگ مارچ کو بھی کامیابی ملی ہے۔ اس کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مظاہرین کی جانب سے جن 71 لاپتہ افراد کی رہائی کا مطابلہ کیا گیا تھا، وہ واپس آچکے ہیں۔

اس دوران آرمی چیف نے وزیرِستان میں داخلے کے لیے وطن کارڈ یا وزیرِستان ویزا کی شرط بھی ختم کردی ہے۔ ان کامیابیوں نے ہزاروں دیگر پختونوں کو سوات، خیبر ایجنسی اور باجوڑ ایجنسی میں چیک پوسٹوں پر بدسلوکی، کرفیوز اور مقامی افراد کے گھروں پر چھاپوں، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف احتجاج کرنے کی ہمت دلائی ہے۔

وقت ہے کہ ریاست کو احساس ہوجائے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سیاست اخباروں، ریڈیو، ٹی وی اور پمفلٹ کے دور سے نہایت مختلف ہے جنہیں سینسر کرنا آسان تھا۔ انٹرنیٹ پر سینسرشپ کو چکمہ دینا نہایت آسان ہے اور سوشل میڈیا نے شہریوں کو ناانصافیوں کے خلاف پُرامن طور پر متحرک اور منظم ہونے کی صلاحیت دی ہے۔

اس لیے ڈرانے دھمکانے کے حربے مثلاً سوات میں مظاہرین کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج یا مقامی تحریکوں کو ملک دشمن اور بیرونی ایجنسیوں کا آلہ کار قرار دینا اب نہیں چل سکتا۔ پختون نوجوان ایک بعد از 11 ستمبر کی سیکیورٹی اسٹیٹ میں بڑے ہوئے ہیں اور انہوں نے دربدری، تشدد اور تفریق دیکھی ہے۔ ریاست کی سیکیورٹی پالیسی میں دہشتگردی کے خلاف برسرِپیکار ہوتے ہوئے بھی انسانی سلامتی اور بنیادی حقوق کو ترجیح حاصل ہونی چاہیے۔ منظم اور پُرعزم نوجوان اس سے کم پر نہیں مانیں گے۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 26 فروری 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

اسامہ خلجی

لکھاری ایک سماجی کارکن، محقق، اور ڈیجیٹل حقوق کے لیے سرگرم گروہ 'بولو بھی ' کے ڈائریکٹر ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: UsamaKhilji@

www.usamakhilji.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔