پاکستان

’سابق آرمی چیف کو کس قانون کے تحت اراضی الاٹ کی گئی‘

کیا ریٹائرڈ ہونے والے ہر آرمی چیف کو اسی طرح کی مراعات ملتی ہیں، تسلی بخش جواب نہیں مل رہے، سینیٹر فرحت اللہ بابر

اسلام آباد: سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کو ’پوسٹ ریٹائرمنٹ بینیفٹ ‘ کی مد میں 88 ایکٹر زرعی اراضی کی الاٹمنٹ کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے نقطہ اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ‘بتایا جائے کہ سابق آرمی چیف کو کس قانون کے تحت اراضی الاٹ کی گئی؟‘

واضح رہے کہ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف سعودی عرب کی سربراہی میں اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ ہیں۔

یہ پڑھیں: ڈی ایچ اے سٹی کے باعث کسان اپنی زرعی اراضی سے محروم

میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کی مدت ملازمت 3 سال کے لیے ہوگی۔

تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ اس سلسلے میں اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لیا گیا یا نہیں، کیونکہ حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے ان خدشات کا اظہار کیا گیا تھا کہ یہ فوجی اتحاد ایران کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے۔

فرحت اللہ بابر نے سوال اٹھایا کہ ’کیا تمام آرمی چیف کو ان کے ریٹائرمنٹ کے بعد اسی طرح کی مراحات ملتی ہیں‘۔

انہوں نے واضح کیا کہ اس ضمن میں ان کے پوچھے گئے تمام سوالات کا کوئی جواب تاحال نہیں دیا گیا۔

عوامی نوعیت کے مسائل پر بات چیت کرتے ہوئے فرحت اللہ بابر نے کہا کہ قومی احتساب بیورو(نیب) نے لاہور میں سول سرونٹ ’بیوروکریٹ‘ کو اراضی کی غیر قانونی الاٹمنٹ کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جنرل ہیڈ کوارٹرز کے لیے 293 ایکڑ اراضی کی الاٹمنٹ جاری

ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل نیب نے پاک فوج کے اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران کے خلاف بھی دائر کرپشن کے مقدمات کھولے ہیں جو کئی عرصے سے سردخانے کی نذر تھے۔

پی پی پی کے رہنما نے کہا کہ ’سابق آرمی چیف کو الاٹ کی گئی اراضی کے متعلق صرف یہ بتایا گیا کہ انہیں اراضی آئین کے دائرکار کے تحت تفویض کی گئی‘۔

دوسری جانب سینیٹ چیئرمین رضا ربانی نے فرحت اللہ بابر کو مزید بات جاری رکھنے سے روکتے ہوئے کہا کہ ’وہ یہ معاملہ ایوانِ زیریں میں اٹھائیں‘۔

جس کے بعد سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سوات میں سیکیورٹی چیک پوسٹ پر شہریوں کو ہراساں اور بے عزت کرنے کے واقعات پر احتجاجی مظاہرے کے حوالے سے بات کی۔

مزید پڑھیں: فوج کی کمرشل سرگرمیوں کو روکنے کے لیے سینیٹ متحرک

ان کا کہنا تھا کہ جب بعض شہریوں نے سیکیورٹی چیک پوسٹ پر بچوں اور خواتین کو گھنٹوں انتظار پر اعتراضات اٹھائے تو انہیں گرفتار کرکے فوجداری مقدمات درج کردیئے گئے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’اصل دہشت گرد ریاستی تحفظ میں ہیں جبکہ سوات کے عام شہریوں پر دہشت گردی کے الزامات لگائے جارہے ہیں جو اپنی عزت نفس کو مجروع ہونے سے بچانا چاہتے ہیں اس لیے فوری طور پر اس معاملے کو حل کیا جائے‘۔

سینیٹ کے اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ سے وابستہ جہاں زیب جمالدینی کے سوالات بھی جواب طلب رہے جن میں انہوں کہا تھا کہ عدالت عظمیٰ کے ججز کے بیرونی ملک دوروں کی مکمل تفصیلات فراہم کی جائے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وزیر قانون چوہدری محمود بشیرورک نے تحریر آگاہ کیا کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار سے گزشتہ پانچ برسوں میں ججز کی جانب سے بیرون ملک دوروں کی تفصیلات کے لیے ایک ماہ قبل درخواست کی گئی لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔


یہ خبر 24 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی