انتظار قتل کیس: انصاف نہ ملا تو قبرستان میں بیٹھ جائیں گے، والد
کراچی کے علاقے ڈیفنس میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے انتظار قتل کیس کی تفتیش کرنے والی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کا دوسرا اجلاس ہوا جہاں مقتول کے والد کے علاوہ عینی شاہد مدیحہ کیانی اور پولیس افسر مقدس حیدر بھی پیش ہوئے۔
جے آئی ٹی کا دوسرا اجلاس بھی سینٹرل پولیس آفس سندھ میں ہوا۔
مقتول انتظار کے والد اشتیاق احمد اپنے وکیل کے ہمرا پیش ہوئے اور میڈیا سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ مجھے جے آئی ٹی میں شامل افسران کی نیت پر شک نہیں ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں بھی اللہ کو جواب دینا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ لوگوں کے تعاون سے امید ہے انصاف ضرور ملے گا تاہم انھوں نے کارروائی کی تفصیلات سے آگاہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ آن کیمرہ سیشن کی کارروائی شائع نہیں کی جاسکتی۔
جے آئی ٹی ممبران پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جے آئی ٹی تمام معاملے کو بڑی باریکی سے دیکھ رہی ہے اور تحقیقات میں واضح ہوگیا ہے کہ واقعہ غفلت نہیں تھا۔
اشتیاق احمد نے اکلوتے بیٹے کے قتل پر انصاف کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اگر انصاف نہ ملا تو ہمارا دنیا میں رہنے کا کوئی مقصد نہیں ہوگا کیونکہ انتظار ہم چار بہن بھائیوں کی واحد اولاد تھی۔
انھوں نے کہا کہ انصاف نہ ملنے پر یا تو قبرستان میں بیٹھ جائیں گے یا تنہائی اختیار کر لیں گے تاہم لائحہ عمل انصاف نہ ملنے کے بعد ہی طے کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ صرف ہماری موجودگی میں ہی نہیں بلکہ غیر موجودگی میں بھی جے آئی ٹی کام کرتی رہتی ہے۔
انتظار قتل کیس کی تفتیش کرنے والی جے آئی ٹی کے دوسرے سیشن میں عینی شاہد مدیحہ کیانی اور ایس ایس مقدس حیدر بھی موجود رہے۔
خیال رہے کہ جے آئی ٹی کو اپنی تفتیش مکمل کرنے کے لیےمزید تین دن رہ گئے ہیں تاہم تحقیقات کی تکمیل کے لیے مزید وقت لگ سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:انتظار قتل کیس: مقتول کے والد نے جے آئی ٹی کو بیان ریکارڈ کرادیا
اشتیاق احمد کے وکیل کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کے افسران مستقل کام کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ انتظار کے قتل کیس کی تحقیقات کے لیے رواں ماہ نئی جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی تھی جس میں آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلیجنس(ایم آئی)، انٹیلی جنس بیورو(آئی بی)، رینجرز اور اسپیشل برانچ کے افسران شامل ہیں۔
انتظار احمد کو ڈیفنس کے علاقے خیابان اتحاد میں 13 جنوری 2018 کو اے سی ایل سی اہلکاروں نے گاڑی کو رکنے کا اشارہ کرنے کے باوجود نہ رکنے پر اہلکاروں نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔
ابتدائی طور پر پولیس کی جانب سے اس واقعے کو دہشت گری کا واقعہ قرار دیا جارہا تھا تاہم بعد ازاں درخشاں تھانے میں اس کا مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔
اس واقعے کے بعد مقتول انتظار کے والد اشتیاق احمد کی جانب سے چیف جسٹس اور آرمی چیف سے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی گئی تھی جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ملوث اہلکاروں کی گرفتاری کا حکم دیا تھا۔
14 جنوری کو اس کیس میں 6 اے سی ایل سی اہلکاروں کو حراست میں لیا تھا، جس میں 2 انسپکٹر، 2 ہیڈ کانسٹیبل اور 2 افسران بھی شامل تھے۔