پاکستان کے ساتھ بینکنگ تعلقات میں تاخیر پر ایرانی سفیر کو افسوس
اسلام آباد: پاکستان-ایران (آئی پی) گیس منصوبے میں تعطل کے بعد پاکستان میں موجود ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست نے اسلام آباد کی قدامت پسندی کے باعث دو طرفہ بینکنگ تعلقات کے قیام میں تاخیر پر افسوس کا اظہار کردیا۔
اسلام آباد میں اسٹریٹجک وژن انسٹی ٹیوٹ میں پاکستان، ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاون تعلقات اور موجودہ خطرات کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے ایران پر قانونی پابندیاں ہیں لیکن ہمارے بھائیوں کی قدامت پسندی سے بینکنگ چینل کھلنے میں تاخیر ہورہی ہے جبکہ دیگر دوسرے ممالک ایران کے ساتھ بینکنگ تعلقات قائم کر رہے ہیں۔
ایرانی سفیر کی جانب سے یہ بیان دو طرفہ تعلقات کے درمیان درپیش چیلجز کو پیش کرتا ہے کیونکہ گزشہ برس آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ تہران کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی تھی لیکن ایران کی جانب سے بھارت کو چاہ بہار بندرگاہ لیزنگ پر دینا اور پاکستان کا سعودی عرب میں فوج تعینات کرنے کا اعلان دونوں ممالک کے درمیان بد اعتمادی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان سازگار حالات سے فائدہ اٹھائے، ایرانی سفیر
خیال رہے کہ دو طرفہ تجارت کو بڑھانے کے لیے بینکنگ تعلقات اہم تصور کیے جاتے ہیں، جو اس وقت 1 ارب 20 کروڑ ڈالر کے ہیں جبکہ انہیں آئندہ کچھ سالوں میں 5 ارب ڈالر تک بڑھانے کا ٹارگٹ ہے لیکن باقاعدہ بینکنگ چینلز کی غیر موجودگی میں اس ٹارگٹ کا حصول کافی مشکل دکھائی دیتا ہے۔
واضح رہے کہ اسٹیکٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی جانب سے گزشتہ برس اپریل میں ایران کے مرکزی بینک کے ساتھ بینکنگ اور پیمنٹ معاہدے (بی پی اے) پر دستخط کیے گئے تھے، جس کے تحت بینک مرکزی جمہوری اسلامی ایران (بی ایم جے آئی آئی) دو طرفہ تجارت کے فروغ کے لیے تجارتی حل کا نظام پیش کرے گا۔
اس کے ساتھ دونوں ممالک کے مرکزی بینک بی پی اے کے تحت ٹرانزیکشن کے لیے تجارتی بینکوں کو دعوت دی گئی تھی لیکن پاکستانی بینکوں کی عدم دلچسپی کے باعث کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔
سیمینار سے خطاب میں آئی پی گیس پائپ لائن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ اتفاق رائے تھا کہ یہ منصوبہ پاکستانی معیشیت کے لیے فائدے مند ہوگا لیکن پاکستان کی جانب سے بیرونی اور اندرونی معاملات کے باعث یہ ابھی تک تاخیر کا شکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ اس منصوبے پر عمل درآمد سے دونوں ممالک کے کچھ عام مسائل حل ہونے میں مدد ملے گی۔
ایرانی سفیر نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ بھارت چاہ بہار بندرگاہ کو پاکستان کے خلاف استعمال کرے گا بلکہ ان کا کہنا تھا کہ جوہری ڈیل کے باجود ان کے ملک پر مسلسل پابندیاں اس بندرگاہ کی لیزنگ کی ایک اہم وجہ ہے۔
اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر دفاع خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ایران کو سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کے ساتھ پاکستان کے تاریخی تعلقات کو بہتر طریقے سے سمجھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جی سی سی ممالک میں استحکام ہمارے مفاد میں ہے اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تقریباً 19 لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں تنہا رہے ہیں جو ہمارے ملک کے بیرون ملک زرمبادلہ میں ایک اہم حصہ رکھتے ہیں۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے ساتھ طویل مدتی قریبی تعلقات اور علاقائی معاملات پر توجہ حکومت کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی کو مستحکم بناتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ نظریاتی تعلقات کے علاوہ گہرے فوجی، معاشی اور قائدانہ تعلقات رکھتا ہے جبکہ یہ سب ایران کے ساتھ معاشی تعاون اور انسداد دہشتگردی کے تعلقات کو استوار کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ‘پاکستان اور ایران تعلقات دوبارہ بحال کرنے کیلئے تیار’
سعودی عرب کے ساتھ تعلقات پر ان کا کہنا تھا کہ ان تعلقات کو مزید نئے شعبوں تک بڑھایا جارہا ہے، جس میں اقتصادی اور صنعتی تعاون بھی شامل ہے۔
سیمینار سے خطاب میں ایس وی آئی کے صدر ڈاکٹر ظفر اقبال چیمہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے سعودی عرب میں فوج بھیجنے کے حالیہ فیصلہ کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی مضبوطی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فوجیوں کو بھیجنے کے ساتھ ان کی تعیناتی کا اعلان فوج کی بجائے سیاسی حکومی کی جانب سے کیا جانا چاہیے تھا۔
یہ خبر 23 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی