’پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا کوئی امکان نہیں‘
اسلام آباد: سابق سفیر جلیل عباس جیلانی نے کہا ہے کہ بھارتی حکمران جماعت بھارتی جنتا پارٹی ( بی جے پی) کے سینئر رہنماؤں کی جانب سے دیے جانے والے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کے آغاز کا کوئی امکان نہیں ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں غیر منافع بخش تنظیم ’انسٹیٹویٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ کے زیر انتظام عالمی سمینار سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں اقلیتوں کی حمایت میں بولنے والی کانگریس نے بھی ہندو نظریات کو اپنا لیا ہے کیونکہ اس کے بغیر ان کی جماعت ختم ہوجائے گی۔انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے بھارت کے پڑھے لکھے لوگوں میں پاکستان کے خلاف نفرت کا عنصر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
خیال رہے کہ بھارت حکومت کی جانب سے 2003 میں سابق سفیر جلیل عباس جیلانی کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیا گیا تھا اور انہیں 48 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کی ہدایت بھی کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ جب نریندر مودی گجرات میں وزیر اعلیٰ کے انتخاباقت میں حصہ لے رہے تھے تو انہوں نے ایسے پوسٹرز کا استعمال کیا تھا جس میں نریندر مودی اور جنرل (ر) پرویز مشرف کی تصویریں شائع کی گئی تھیں اور لکھا گیا تھا کہ نریندر مودی کے خلاف ووٹ پرویز مشرف کی حمایت میں ہوگا۔
مزید پڑھیں: 'مودی کے ہوتے پاک-بھارت تعلقات میں بہتری کی امید کم'
جلیل عباس جیلانی کا کہنا تھا کہ نریندر مودی کی جانب سے یہی ترکیب گزشتہ عام انتخابات میں بھی استعمال کی گئی جہاں کہاں گیا کہ نریندر مودی کے خلاف ووٹ پاکستان اور دہشت گردی کی حمایت میں ووٹ ہوگا۔
سیمینار سے خطاب میں برطانوی کشمیری صحافی اور سیکیورٹی تجزیہ کار مرتضیٰ شبلی کا کہنا تھا کہ راشتریہ سویام سیوک ( آر ایس ایس) قوموں کو متحد کر رہی ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ غیر تقسیم شدہ اکھنڈ بھارت میں مسلمانوں کو رہنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے بھارتی فوج اپنی ریاست کی ذمہ داری کے بجائے کشمیر میں مذہب کا فرض پورا کررہی ہے، لہٰذا ان کے اہلکاروں کا یہ ماننا ہے کہ وہ آزادی کی آواز کو دبانے کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
تقریب سے خطاب میں بھارت کے لیے پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط نے دعویٰ کیا کہ نریندر مودی کی جماعت نے آئندہ انتخابات میں دوبارہ اکثریت حاصل کی تو وہاں اقلتیوں کے حالات مزید خراب ہوں گے۔
عبدالباسط کا کہنا تھا کہ بھارت کے نام نہاد سیکولر تشخص کے لیے بھی یہ مشکلات کا باعث ہو گا، انہوں نے کہا کہ نریندر مودی کو انتخابات میں کامیابی کے لیے انتہا پسند پالیسیاں اور پاکستان دشمن جذبات کی ضرورت ہوتی ہے۔
سابق ہائی کمشنر نے کہا کہ بھارت میں 17 کروڑ مسلمانوں کی بھارتی ایوان زیریں لوک سبھا میں نمائندگی بہت کم ہے۔
عبدالباسط کا کہنا تھا کہ آر ایس ایس ’بجرنگ دل‘ اور ’شیو سینا‘ جیسی ہندو انتہا پسند تنظیمیں مسلمانوں کو نا صرف مذہب کی تبدیلی بلکہ معاشرتی اور سماجی طور پر بھی ہندو ازم اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔
بھارت میں عدم برداشت میں اضافہ انتہائی تشویشناک، راجہ ظفر الحق
علاوہ ازیں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے دار بھارت میں ہندو انتہا پسندی اور اقلتیوں کے خلاف عدم برداشت کے رجحان میں مسلسل اضافہ انتہائی تشویش کا باعث ہے۔
سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ بھارت میں مودی سرکار کے دور میں نہ صرف مقبوضہ کشمیر میں ریاستی مظالم میں اضافہ ہوا بلکہ مسلمانوں، سکھوں اور ہندوؤں کی نچلی ذات دلتوں کے خلاف نفرت اور عدم برداشت کے روئیوں کو بھی خطرناک حد تک فروغ ملا۔
یہ بھی پڑھیں: ہم بھارت سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں، عبدالباسط
انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ بھارتی حکمران نریندر مودی خود گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث رہے۔
بعد ازاں ’انسٹیٹویٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ کے سربراہ خالد رحمٰن نے سینیٹر راجہ ظفر الحق اور عبدالباسط کو یادگاری شیلڈز پیش کیں۔
سمینار کا مقصد بھارت میں ہندو ازم کے انتہا پسندانہ رجحانات میں اضافے اور اس کے اثرات کے حوالے سے امور کا جائزہ لینا تھا۔