پاکستان

کے پی حکومت کی مشال قتل کیس فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں اپیل

ایڈووکیٹ جنرل (اے جی) لطیف یوسفزئی کی جانب سے اے ٹی سی کے فیصلے کے خلاف تین الگ الگ اپیلیں دائر کی گئیں۔
|

خیبرپختونخوا (کے پی) حکومت نے مشال خان قتل کیس میں 26 افراد کی بریت کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردی۔

کے پی کے ایڈووکیٹ جنرل (اے جی) لطیف یوسفزئی نے تین الگ الگ اپیلیں دائر کیں جن میں سے پہلی اپیل میں عدالت سے 26 افراد کی بریت کو معطل کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

لطیف یوسفزئی کی جانب سے دائر دوسری اپیل میں مرکزی ملزم سمیت 31 افراد کی جرم سے بریت کے خلاف جبکہ تیسری اپیل میں جن 31 افراد کو تین سال کی قید سنا دی گئی ہے ان کی سزا میں اضافے کی اپیل کی گئی ہے۔

درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ نے 26 افراد کی بریت کے فیصلے میں 'واضح غلطی کی اور غیرقانونی طور پر بری کردیا' جبکہ استغاثہ کی جانب سے ان کے خلاف ثبوت پیش کیے گئے تھے۔

اپیل میں مزید کہا گیا ہے کہ بریت قانون کی نظر میں برقرار رہنے کے قابل نہیں ہے اس لیے اس کو معطل کردیا جائے۔

قبل ازیں 14 فروری کو مشال خان کے بھائی ایمل خان نے ایبٹ آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے 26 ملزمان کی بریت کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

مزید پڑھیں:مشال خان قتل کیس: اے ٹی سی کا فیصلہ پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج

ایمل خان نے اپنی اپیل میں موقف اختیار کیا کہ بری ہونے والے ملزمان نے ٹرائل کورٹ کے سامنے معافی مانگی اور اپنے آپ کو بے گناہ کہا جس کے بعد عدات نے انھیں رہا کردیا تاہم رہائی کے فوراً بعد مذہبی جماعت کی جانب سے ان کے اعزاز میں تقریب منعقد کی گئی جہاں انھوں نے ایک مرتبہ پھر مشال خان کو قتل کرنے کا اعتراف کیا۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہینِ مذہب کے جھوٹے الزامات پر مشال خان کو قتل کرنے والے ہجوم میں اے ٹی سی سے رہائی پانی والے 26 افراد بھی شامل تھے جبکہ تمام گرفتار افراد کے خلاف ایک ہی طرح کے الزامات تھے، اسی لیے ان کی رہائی غیر قانونی ہے۔

ایمل خان کی اپیل میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ تمام ملزمان پر نہ صرف قتل اور ظلم کے الزامات ہیں بلکہ ان کا اقدام معاشرے اور انسانیت کے منافی بھی ہے جس کی وجہ سے 26 ملزمان کی رہائی اسلامی اقدار کے بھی منافی ہے۔

درخواست گزار نے مشال قتل کیس میں 26 ملزمان کی رہائی کو قصاص کے بنیادی اصولوں کے بھی منافی قرار دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:مشال خان قتل کیس: ایک مجرم کو سزائے موت اور 5 مجرموں کو 25 سال قید کی سزا

دوسری جانب مشال خان قتل کے مرکزی ملزم اور عمرقید کی سزاپانے والے دیگر 12 ملزمان نے بھی فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔اے ٹی سی سے سزا پانے والے 13 ملزمان کی جانب سے وکیل سید اختر نے اپیل دائر کی تھی۔

یاد رہے کہ 7 فروری کو ایبٹ آباد کی اے ٹی سی عدالت نے عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کے قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ایک مجرم کو سزائے موت، 5 مجرموں کو 25 سال قید اور 25 مجرموں کو 3 سال قید جبکہ 26 ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیا تھا۔

یاد رہے کہ 23 سالہ مشال خان کو 13 اپریل 2017 کو کے پی میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین رسالت کے الزام پر ہجوم نے تشدد کانشانہ بنا کر قتل کر دیا تھا۔