حیدرآباد: ٹائیفائیڈ بخار کےخلاف انٹی بائیوٹکس ادویات غیر موثر
لندن: طبی محققین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں ٹائیفائیڈ بخار کو ختم کرنے والی ادویات ‘سپربگ’ نامی انفیکشن کی وجہ سے غیر موثر ہوگئی ہیں جس کے باعث ٹائیفائیڈ بخار کے جرثموں کا علاج تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔
خیال رہے کہ طبی دنیا میں سپر بگ ایسا انفیکشن کہلاتا ہے جس کے خلاف دوائیاں اثر نہیں کرتیں۔
یہ پڑھیں: مرغی کے گوشت میں مضر صحت ادویات کے ذرات موجود ہونے کا انکشاف
خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے ویلکم سینگر انسٹی ٹیوٹ سے منسلک طبی سائنسدانوں نے ٹائیفائیڈ کے جرثوموں کا تجزیہ کرکے بتایا کہ ٹائیفائیڈ کی جینز تبدیل ہو کر ڈی این اے کا حصہ بنتی جارہی ہیں جس کی وجہ سے اب متعدد اینٹی بائیوٹکس ادویات غیر موثر ثابت ہوں گی۔
سینگر ٹیم کے ساتھ کام کرنے والے آغا خان ہسپتال کے ماہرین نے بتایا کہ پاکستان کے شہر حیدرآباد میں نومبر 2016 میں ٹائیفائیڈ سپربگ کا انکشاف ہوا جو تیزی سے پھیل رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ادویات کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ
سرکاری اعداد وشمار میں متعلقہ مرض سے متاثر ہو کر موت کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد کا ذکر نہیں تاہم مقامی میڈیا نے محکمہ صحت کے حوالے سے بتایا کہ صرف حیدرآباد میں سال 17-2016 کے درمیانی عرصے میں 800 سے زائد ناقابل علاج ٹائیفائیڈ کیسز منظر عام پر آچکے ہیں۔
طبی محققین کے مطابق ‘ٹائیفائیڈ کا یہ بیکٹریا اس قدر طاقت ور ہوچکا ہے کہ اس پر آزمائی گئی پانچ اینٹی بائیوٹکس ادویات ناکارہ ہو چکی ہیں’۔
مزید پڑھیں: ادویات سے متعلق کیس: ’سندھ ہائی کورٹ حکم امتناعی کی درخواستوں پر 15 روز میں فیصلہ کرے‘
سینگر انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ڈاکٹر ایلیزبتھ کلیم کا کہنا تھا کہ ‘یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ٹائیفائیڈ مزاحمت کار جرثوموں کے خلاف طبی کوششیں اس وقت ناکامی کا شکار ہوئیں’۔
ٹائیفائیڈ بخار ‘سالمونیلا ٹائی فی’ نامی ایک جرثومے سے پھیلتا ہے جو عمومی طور پر آلودہ پانی، کھانے سے ہوتا ہے اور اس کی علامتوں میں متلی، بخار، پیٹ میں درد اور سینے پر گلابی دھبے شامل ہیں، اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو موت یقینی ہوتی ہے۔
یہ خبر 21 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی