پاکستان

زینب قتل کیس کے مجرم نے سزا کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا

ٹرائل کورٹ نے فیصلہ جلدی میں کیا جبکہ عدالت نے اس دوران قانونی تقاضے پورے نہیں کئے، مجرم عمران
|

لاہور: قصور میں ریپ کے بعد قتل کی جانے والی زینب کے کیس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے سزائے موت پانے والے مجرم عمران نے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔

زینب قتل کیس کے مجرم عمران نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کی سزا کے خلاف اپیل لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی۔

اپیل میں مجرم عمران کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کا فیصلہ جلدی میں کیا گیا جبکہ ٹرائل کورٹ نے اس دوران قانونی تقاضے پورے نہیں کئے۔

مزید پڑھیں: زینب قتل کیس: مجرم عمران کو 4 مرتبہ سزائے موت کا حکم

مجرم عمران نے اپیل میں مزید استدعا کی کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

یاد رہے کہ مجرم عمران کی جانب سے سزا کے خلاف اپیل جیل انتظامیہ نے ہائی کورٹ میں دائر کی۔

واضح رہے کہ 17 فروری 2018 کو لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے قصور میں 6 سالہ بچی زینب کو ریپ کے بعد قتل کے جرم میں عمران علی کے خلاف 4 مرتبہ سزائے موت، تاحیات اور 7 سالہ قید کے علاوہ 41 لاکھ جرمانے کا فیصلہ سنایا تھا۔

مجرم عمران علی کو عدالت نے بچی کے اغوا، ریپ، قتل اور انسداد دہشت گردی کی دفعہ 7 اے ٹی اے کے تحت سزا سنائی۔

انسدادِ دہشت گردی عدالت نے بچی کے ساتھ بدفعلی پر عمر قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا، عدالت نے تعزیرات پاکستان کے تحت دو دفعہ سزائے موت کے ساتھ ہر سزا پر دس لاکھ، دس لاکھ روپے جرمانہ اس کے علاوہ بچی کی لاش کو گندگی کے ڈھیرمیں چھپانے کے جرم میں 7 سال قید کی سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا۔

یہ بھی پڑھیں: زینب قتل: ملزم عمران مزید 7 بچیوں کے قتل کیسز میں نامزد

جج کی جانب سے دس لاکھ جرمانہ بھی عائد کیا گیا جو مجرم متاثرہ خاندان کو ادا کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سائنٹفیک بنیادوں پر فرانزک شواہد کو شامل تفتیش کرتے ہوئے مجرم کو سزا سنائی گئی ہے۔

قصور میں 6 سالہ زینب کا قتل

صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔

جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا کہ اس وقت ان کے والدین عمرے کی ادائیگی کے سلسلے میں سعودی عرب میں تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔

5 روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تو ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔

بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا تھا، جس کے بعد لاش کو ورثا کے حوالے کردیا گیا تھا تاہم یہ بھی اطلاعات تھی کہ بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

بچی کی لاش ملنے کے بعد قصور میں پُر تشدد مظاہروں کا آغاز ہوا اور میں شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب اہلِ علاقہ نے مشتعل ہو کر ڈی پی او آفس پر دھاوا بول دیا اور دروازہ توڑ کر دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔

مزید پڑھیں: زینب قتل کیس: 'تالیوں کے بجائے افسوس کی ضرورت تھی'

اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی تھی جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

10 جنوری کو بچی کے والدین عمرے کی ادائیگی کے بعد پاکستان پہنچے اور انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے ننھی زینب کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی تھی۔

بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے گھر کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان سے ملاقات کر کے مجرموں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی تھی۔

23 جنوری کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے والد کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ زینب کے قاتل کو گرفتار کرلیا گیا، یاد رہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ملزم عمران کو پاکپتن سے گرفتار کیا گیا تھا۔