لُطف اللہ، ٹھگ اور سندھ کا ساحل
لُطف اللہ، ٹھگ اور سندھ کا ساحل
ماضی سے آشنائی کا ایک بہتر ذریعہ گزرے زمانوں کی آپ بیتیاں اور سفرنامے ہیں۔ ضرور ایسی کئی مشاہداتی تحریریں رہی ہوں گی جو ہم تک نہ پہنچ سکیں، اب اس میں بدنصیبی کس کی ہے یہ کہنا مشکل ہے۔ مگر شکر ہے کہ چند قلم کاروں کا قلمبند کیا ہوا ماضی اور وقتِ حیات ہم تک بحفاظت پہنچا اور ہم نے بھی اسے ماضی کا جھروکا بنا لیا۔
ماضی میں جھانکتی ایسی ہی ایک آپ بیتی ’لُطف اللہ‘ کی بھی ہے، جس میں ’آپ‘ بہت کم البتہ ’بیتی‘ کچھ زیادہ ہے۔ یہ بھی کیا کمال سے کم ہے کہ ایک شخص اپنی داستانِ زندگی سننے کی دعوت دے اور پھر داستان میں اپنا ذکر کم اور زمانے کا تذکرہ زیادہ سے زیادہ کرے، تو یہ کمال میاں لُطف اللہ ہی کرسکتے تھے اور کرگئے، بلاشبہ یہ سب کے بس کی بات نہیں۔
لُطف اللہ 4 نومبر 1802ء میں جاڑوں کی موسم کی ابتداء میں مالوہ کے شہر دھارا نگر میں پیدا ہوا۔ وہ ایک ذہین اور زندگی کی مشکلات سے نبردآزمائی کرنے والا شخص تھا۔ وہ سندھ میں 36 برس کی عمر میں یعنی 1838ء میں آیا تھا اور ایک برس تک یہاں رہا۔ لُطف اللہ نے اپنی آپ بیتی انگریزی میں تحریر کی تھی، اور یہ اپنے زمانے میں مشہور کتاب ثابت ہوئی اور مسلسل 3 بار شایع ہوئی۔
اس کتاب کا اردو ترجمہ ڈاکٹر مبارک علی نے کیا ہے۔ وہ اس کے متعلق لکھتے ہیں،
’یہ آپ بیتی اُن دنوں کی تصویر ہے جب ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے اقتدار کو بڑھا رہی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان 2 حصوں میں بٹ گیا تھا، ایک وہ ہندوستان جہاں نوآبادیاتی نظام اپنی جڑیں مضبوط کر رہا تھا، جبکہ دوسری جانب راجاؤں، نوابوں اور سرداروں کا ہندوستان تھا جہاں قدیم روایات اور ادارے تھے۔ نوآبادیاتی نظام دھیرے دھیرے ہندوستان کو نگل رہا تھا۔‘
اسی زمانے میں ان ’پھانسی گروں‘ کا راج بھی تقریباً اپنے اختتام کو پہنچا جو چکنی چُپڑی باتیں کرنے، مسافروں سے راہ و رسم بڑھانے اور پھر موقع ملتے ہی اُن کے گلے میں رومال کا پھندا ڈال کر مار دینے میں مشہور تھے، انہیں ’ٹھگ‘ بھی کہا جاتا تھا۔ صدیوں تک سڑکوں اور پگڈنڈیوں پر راج کرنے والے ٹھگوں کے اِن گروہوں کا اختتام ہوا۔ یہ شاید ایک بہت بڑا کام تھا جس کو انگریز نے بڑی تحقیق و جستجو سے مکمل کیا۔ ایک حوالے سے یہ انتہائی قبیح عمل تھا کہ تھوڑی ملکیت کے لیے چند افراد یا پورے کے پورے قافلے کو موت دے دی جائے اور وہ بھی ایسی ملکیت جس کے ہونے نہ ہونے کا کوئی یقین نہیں ہوتا تھا۔
یہ قتل ایسے نہیں ہوتے تھے بلکہ ایک باقاعدہ ورک پلان پر عمل کرکے کیے جاتے تھے۔ جس میں غلطی کی گنجائش بس نام کی ہی ہوسکتی تھی۔ یہ چوری یا ڈاکے ڈالنے جیسا وقتی عمل نہیں ہوتا تھا بلکہ یہ پلان شروع سے آخر تک ہر پل اسی عمل سے جُڑا رہتا تھا اور اپنی جگہ پر یہ بھی ایک کمال تھا۔ ہر مشکل کام اور معاشرے سے چُھپ کر عمل کرنے کے لیے پوشیدہ زبان کی ضرورت پڑتی ہے مگر ان ’ٹھگوں‘ کی اپنی ایک الگ دنیا تھی جو پہلے پل سے آخر تک ایک پُراسراریت کی دُھند میں لپٹی رہی۔ یہ ہی سبب ہے جو آج تک ٹھگوں کے زمانے، اُن کی رسومات اور ٹھگی کی تکنیک پر پُراسراریت کی چادر تنی ہوئی ہے۔