دنیا

افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں، آرمی چیف

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بے پناہ قربانیاں دی ہیں تاہم اب بھی عالمی تعاون کی ضرورت ہے، جنرل قمر جاوید باجوہ

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پاکستان 40 برس قبل جو بویا گیا تھا اس کو کاٹ رہا ہے اور سرحد کے ساتھ افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں جبکہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔

جرمنی کے شہر میونخ میں سیکورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان میں دہشت گردی اور جہاد کے حوالے سے مغرب میں پائی جانے والی غلط فہمیوں پر روشنی ڈالی اور وضاحت کرتے ہوئے پاکستان کا موقف پیش کیا۔

آرمی چیف کا کہنا تھا کہ جہاد کا حکم دینے کا اختیار صرف ریاست کوہے اور خود پر قابو رکھنا بہترین جہاد ہے جبکہ تمام مکتبہ فکر کے علما نے جہاد کے نام پر ہونے والے نام نہاد جہاد کے خلاف فتویٰ دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان ایشیا میں تیز رفتار ترقی کرنے والے ممالک میں شامل ہوچکا ہے۔

جنرل قمر باجوہ کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا کردار بےمثال ہے۔

پاکستان کو دہشت کے باعث ہونے والے نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایک وقت تھا پاکستان سیاحوں کے لیے پسندیدہ جگہ تھی لیکن پاکستان نےدہشت گردی کےخلاف جنگ میں بھاری قیمت ادا کی ہے۔

اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم وہ کاٹ رہے ہیں جو 40 سال پہلےبویا گیا تھا اور شدید نقصان کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صف اول میں ہیں اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل پیرا ہیں۔

آرمی چیف نے کہا کہ فخرسےکہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے نہیں ہیں تاہم مختلف شکلوں میں دہشت گردوں کی موجودگی کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

انھوں نے کہا کہ ہم نے القاعدہ، جماعت الاحرار اور تحریک طالبان کوشکست دی۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں اور افغان سرزمین سے پاکستان پر حملے ہورہے ہیں، پاکستان اور افغانستان خود مختار ملک ہیں اور دہشت گردی کو روکنے کے لیے پاک-افغان بارڈ ر پر بائیومیٹرک سسٹم لگایا۔

سرحد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ سرحدی نظام کو بہتر کیا تاہم دہشت گردی کے خلاف عالمی تعاون کی ضرورت ہے۔