پولیس حکام نے انکشاف کیا ہے کہ ایس ایس پی ملیر بننے کے بعد سے اب تک راؤ انوار نے دبئی کے 74 دورے کیے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ تقریباً ہر ماہ ایک دورہ۔ ان کی 95 ہزار روپے کی ماہانہ تنخواہ اس لائف اسٹائل کو بمشکل ہی سہارا دے سکتی ہے۔
سندھ حکومت کے ایک سینیئر ذریعے نے تصدیق کی کہ کسی بھی موقع پر راؤ انوار نے ملک چھوڑنے کی اجازت طلب نہیں کی، جو کہ بیرونِ ملک جا رہے ہر سرکاری ملازم پر حاصل کرنا لازم ہوتی ہے۔
اس بات پر بھی سوال کرنا چاہیے کہ ایف آئی اے کراچی ایئرپورٹ نے چار سال قبل تک سندھ پولیس میں ایس ایس پی رہ چکے ڈپٹی ڈائریکٹر عاصم قائمخانی کی زیرِ سربراہی انہیں قانونی دستاویزات کے بغیر ملک سے باہر کیسے جانے دیا۔ اس کے بجائے راؤ انوار کا ایس ایچ او تھانہ ایئرپورٹ کے طور پر تعینات رہنے کا مطلب تھا کہ جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ، ہر طرح کی ممنوعہ اشیاء اسمگل کرنے والے تمام تر کھیپیوں (اسمگلروں) کے ساتھ راؤ انوار کو کسی بھی حیرت میں ڈالنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کے علاوہ ایئرپورٹ ضلع ملیر میں ہے۔
ڈان نے دبئی میں راؤ انوار کے متعلق چند تفصیلات حاصل کی ہیں۔ انہیں ان کی اہلیہ ثمینہ انور احمد خان کے نام پر اقامہ جاری کیا گیا ہے جو انہیں امارات میں کاروبار کرنے سے روکتا ہے۔
ان کے تین بچے — ایک بیٹا اور دو بیٹیاں — قانونی طور پر مسز خان کے ساتھ رہتے ہیں۔ مسز خان کو دبئی میں قائم اے اے اے ٹریڈنگ کمپنی کے امر احمد خان کا شراکت دار سمجھا جاتا ہے جسے ویسے تو اشیائے خور و نوش کا کاروبار کرنا چاہیے، مگر یہ کمپنی کوئی کاروبار نہیں کرتی۔
راؤ انوار کی طاقت کا راز صرف اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا بننا نہیں ہے، بلکہ وہ سندھ کے سیاسی منظرنامے پر موجود وی وی آئی پیز سے اپنے قریبی تعلقات سے بھی کافی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ انہیں سب سے پہلے مارچ 2008 میں انسپکٹر کے عہدے سے ڈپٹی سپرینٹنڈنٹ پولیس کے عہدے پر ترقی دی گئی، اور صرف چھے بعد بعد جب آصف علی زرداری نے صدر کے طور پر حلف اٹھایا تو دو ہفتوں کے اندر انہیں 18 ستمبر 2008 کو ایس پی بنا دیا گیا۔ بغیر باری کی یہ ترقی جولائی 2013 میں عدالتی حکمنامے کی وجہ سے ریورس ہوگئی تھی۔
ایک دلچسپ کہانی سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیس کمان میں ان سے کہیں سینیئر پولیس افسران بھی راؤ انوار کے سامنے کس طرح جھک جاتے ہیں۔ کلفٹن پولیس کی ایک ٹیم نے ایک دفعہ ایک کاروباری شخصیت کے اپارٹمنٹ پر چھاپہ مارا جو کہ اب سینیئر پی ٹی آئی رہنما بھی ہیں۔ یہ شخص اس وقت تین حاضر سروس ڈی آئی جیز کے ساتھ تھے۔
جب سینیئر حکام نے احتجاج کیا تو پولیس پارٹی نے انہیں راؤ انوار سے بات کرنے کے لیے کہا، جنہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ ان شخص کے پاس پولیس کے ساتھ جانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس پر راؤ انوار سے دو رینک سینیئر ڈی آئی جیز نے کلفٹن پولیس سے کم از کم اس وقت تک انتظار کرنے کے لیے کہا جب تک کہ وہ وہاں سے چلے نہیں جاتے۔
مگر پھر بھی آپ اسے جیسے بھی دیکھیں، ذمہ داری آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ پر عائد ہوتی ہے۔ سول سوسائٹی کے کارکنان نے اس یقین پر کہ خواجہ سندھ پولیس میں کچھ نظم و ضبط لائیں گے، انتھک مہم چلائی، جس کے بعد سپریم کورٹ نے حال ہی میں سندھ میں سینیئر پولیس حکام کی تعیناتیوں اور تبادلوں کا اختیار انہیں لوٹا دیا۔ سندھ حکومت نے انہیں ان سے یہ اختیار اس لیے چھین لیا تھا تاکہ زمین، شوگر ملز، اور ووٹر لسٹوں میں جعلسازی کی مجرمانہ سرگرمیاں بلا روک ٹوک جاری رہ سکیں۔
واقفانِ حال یہ تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ آئی جی اپنے پیشروؤں سے کئی انداز میں بہتر ہے، مگر پھر بھی ان کا کہنا ہے کہ خواجہ نے صوبے کی اعلیٰ ترین شخصیات کے ساتھ کئی 'سمجھوتے' کیے ہیں۔ سندھ حکومت کے ایک افسر کے مطابق، "جب ایک آئی جی تعیناتی یا تبادلہ کرتا ہے تو اس کے لیے وہ وزیرِ اعلیٰ سے مشورہ کرتا ہے، بھلے ہی اسے اس کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایس پی ملیر کو نہیں ہٹایا، اور نہ ہی جامشورو، خیرپور، لاڑکانہ اور نوابشاہ کے ایس ایس پیز کو۔ یہ تمام ضلعے پی پی پی کے گڑھ ہیں۔ دیگر تمام ایس ایس پیز کے تبادلے کر دیے گئے تھے۔"
ایس ایس پی جامشورو عرفان بہادر کا معاملہ خصوصاً دلچسپی کا حامل ہے۔ بہادر تقریباً ایک سال تک برطانیہ میں تھے۔ ان کی اہلیہ ٹیئر 2 ویزا کی مرکزی درخواست دہندہ تھیں، اور بہادر بھی ان کے ساتھ ویزا کے حصول کا انتظار کر رہے تھے۔ ڈیوٹی سے طویل عرصے تک غیر حاضری کے بعد واپس آتے ہی انہیں ایس ایس پی جامشورو تعینات کر دیا گیا۔
سندھ حکومت کے ذریعے کے مطابق یہ بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین اور زرداری کے قریبی ساتھ ملک ریاض تھے جنہوں نے "عرفان بہادر کو اس وقت جامشورو میں تعینات کروایا جب وہ بحریہ ٹاؤن کراچی کو اس ضلعے تک توسیع دے رہے تھے۔" یہ وہ سمجھوتے اور معاہدے ہیں جن کی وجہ سے سندھ پولیس ایک غارت گر ریاست کی کارندہ بن چکی ہے۔
پولیس کی جانب سے آدھی رات کو دیہات پر چھاپے مارے گئے ہیں، لوگوں پر تشدد کیا گیا ہے، اٹھایا گیا ہے، جھوٹے مقدمات میں پھنسایا گیا ہے، اور دھمکایا گیا ہے اگر زمین سے دستبردار نہیں ہوئے تو انہیں جھوٹے پولیس مقابلے میں مار دیا جائے گا۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب مقامی افراد نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ راؤ انوار کی پولیس نے کس طرح بحریہ ٹاؤن کے غنڈوں کے ساتھ مل کر دیہاتیوں کو ڈرا دھمکا کر رکھا ہوا تھا۔
"بحریہ 2008 سے ہمارے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ غصے سے لرزتی ہوئی آواز میں زرینہ جوکھیو نے بتایا کہ "انہوں نے میری زمین پر موجود دو کنوئیں تباہ کر دیے۔ پوشیدہ نمبر پلیٹوں والی پولیس موبائیلیں انہیں تحفظ فراہم کر رہی تھیں۔ ہم مدد کے لیے کہاں جائیں اگر پولیس اور مقامی ایم پی اے ہماری مدد نہیں کرتے؟"
اس دوران سابق ایس ایس پی کے ساتھ کیا ہونے کے امکانات ہیں؟ ایک سینیئر پولیس افسر کے مطابق ذمہ داران اب بھی "ان پر مقدمات چلانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ وہ صرف انہیں ہٹانا چاہتے تھے۔ پولیس، ایجنسیوں اور سیاستدانوں کا 100 فیصد منصوبہ ہے کہ انہیں بغیر کسی سزا کے بچا لیا جائے گا۔"
مگر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ راؤ شاید اب خود ذمہ داری بن گئے ہوں۔ بہت زیادہ کچھ جاننا بھی خطرناک ہوسکتا ہے۔
اضافی رپورٹنگ از عمران ایوب، اسحاق تنولی
— شناخت کے تحفظ کے لیے چند نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
یہ رپورٹ ڈان اخبار میں 16 فروری 2018 کو شائع ہوئی۔