پاکستان

ڈان انویسٹی گیشن : راؤ انوار اور کراچی میں ’ماورائے عدالت قتل‘

قانون نافذ کرنے والے اداروں میں کس طرح کا نظام موجود ہے، جو ایس ایس پی ملیر کی طرح اہلکاروں کو تحفظ فراہم کرتا ہے؟
|

راؤ انوار اپنے ساتھیوں کے ہمراہ — ڈان نیوز/فائل فوٹو

اکتوبر 2008 کی ایک دوپہر میں دو بجے کے قریب پولیس موبائلوں کا ایک قافلہ مواچھ گوٹھ میں ایک قتل کی جائے وقوعہ کے دورے کے بعد واپس لوٹ رہا تھا کہ ایک سفید ٹویوٹا کرولا میں دو نوجوانوں نے گاڑی قافلے کے آگے لاتے ہوئے شرارتاً زگ زیگ چلائی۔ ایک ماہ پہلے ہی ڈی ایس پی سے ایس پی بننے والے راؤ انوار قافلے کی قیادت کر رہے تھے۔ پچھلی گاڑیوں میں سے ایک میں آنے والے پولیس افسر کے مطابق راؤ انوار اس 'گستاخی' پر طیش میں آ گئے اور حکم دیا کہ اس گاڑی کو روکا جائے، مگر لڑکے نکل جانے میں کامیاب رہے۔

راؤ انوار کے حکم پر دو موبائلوں نے گاڑی کا پیچھا کیا یہاں تک کہ گاڑی بلدیہ ٹاؤن میں داخل ہوگئی۔ وہ افسر یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، "میں بھی ان کے پیچھے پیچھے گیا تاکہ معاملہ سلجھایا جا سکے، کیوں کہ بہرحال لڑکوں نے کوئی مجرمانہ حرکت نہیں کی تھی۔ اچانک گولیوں کی تڑتڑاہٹ سنائی دی۔ جلد ہی وہ کرولا تک پہنچ گئے جسے اب لوگوں نے گھیر رکھا تھا؛ اندر ان میں سے ایک نوجوان کی لاش تھی جسے انہوں نے تھوڑی دیر پہلے گاڑی میں دیکھا تھا۔ "وہ 18 سے 19 سال سے زیادہ کا نہیں تھا۔ وہاں موجود لوگوں نے کہا کہ پولیس نے اسے قتل کیا تھا۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ آخر کس طرح کے لوگ ایسا قتل کر سکتے ہیں؟"

ایک دہائی بعد جب راؤ انوار کی 'زیادتیوں' کی تفصیلات روشنی میں آ رہی ہیں تو زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ قانون کے نفاذ کا کیسا نظام ہے جو راؤ انوار جیسے لوگوں کو پروان چڑھاتا ہے؟

نیشنل ہائی وے سے ایک کلومیٹر دور دو کمروں کے ایک ویران فارم ہاؤس میں غروب ہو رہے سورج کی روشنی گولیوں سے چھلنی دیوار پر منعکس ہو رہی ہے۔ یہاں قائدِ اعظم کی ایک تصویر بھی آویزاں ہے۔ گولیوں کے نشان اور خون آلود قالین گزشتہ ماہ ہونے والے قتل کا باقی رہ جانے والا واحد ثبوت ہیں۔ ایک ڈی ایس پی کہتے ہیں، "دو لاشیں یہاں ملی تھیں، جبکہ دو دوسرے کمرے سے برآمد ہوئیں۔" ان میں سے ایک لاش نقیب اللہ محسود کی تھی، وہ نوجوان جس کی گزشتہ ماہ ایک جعلی پولیس مقابلے کی ہلاکت کی وجہ سے راؤ انوار کو ایس ایس پی ملیر کے عہدے سے معطل کیا گیا۔

نقیب اللہ کے قتل تک سندھ کے نام نہاد 'انکاؤنٹر اسپیشلسٹ' نے اپنے 'کریڈٹ' پر موجود پولیس مقابلوں میں ہلاکتوں پر کبھی بھی انکوائری کا سامنا نہیں کیا تھا۔ پولیس کے اپنے ریکارڈ کے مطابق 2011 سے 2018 کے درمیان کم از کم 444 لوگ قتل ہوئے، مگر ایک بھی انکوائری نہیں ہوئی۔ 745 پولیس مقابلوں میں ایک بھی پولیس اہلکار زخمی تک نہیں ہوا، ہلاک ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔

2013 کے اواخر میں کراچی میں شروع ہونے والے رینجرز آپریشن نے راؤ انوار کے دور میں ضلع ملیر میں پولیس مقابلوں کو تیزی دی۔ پولیس کے ریکارڈز کے مطابق ملیر میں جنوری سے اکتوبر 2012 کے درمیان 195 پولیس مقابلے ہوئے جس میں 18 لوگ قتل ہوئے اور 276 گرفتار ہوئے۔ اموات اور گرفتاریوں کا تناسب، یعنی 'شرحِ قتل' 6.5 فیصد رہی۔ فروری سے جون 2013 کے درمیان شرحِ قتل 17.6 فیصد رہی۔ 2014 میں آپریشن شروع ہونے کے بعد 186 مقابلوں میں 152 لوگ ہلاک ہوئے جبکہ 192 گرفتار ہوئے، یعنی شرحِ قتل 79 فیصد رہی۔ گزشتہ سال 93 مقابلوں میں 110 اموات اور 89 گرفتاریاں ہوئیں۔ اس کا مطلب ہے کہ گرفتاریوں کی تعداد قتل سے 23 فیصد کم رہی۔ موجودہ نظامِ قانون ہمیں یہ بتانے سے قاصر ہے کہ تہ تیغ کر دیے گئے ان لوگوں میں سے نقیب اللہ کی طرح کتنے معصوم لوگ شامل تھے۔

ایک سینیئر پولیس افسر کہتے ہیں، "ان کے پاس قاتلوں کی ایک پوری ٹیم تھی۔ انہیں روکنے والا کوئی بھی نہیں تھا۔ ان کے اقدامات کا پہلے کوئی نوٹس کیوں نہیں لیا گیا؟ سچ تو یہ ہے کہ سب کو سب کچھ پتہ ہے، مگر پولیس کے سربراہان بھی ان (راؤ انوار) سے خوفزدہ ہیں کیوں کہ ان کے مجرم سیاستدانوں اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے کافی قریبی تعلقات ہیں۔"

(دلچسپ بات یہ ہے کہ سینٹرل پولیس آفس کراچی میں راؤ انوار کے پولیس مقابلوں میں ہلاکتوں کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔)

طویل عرصے سے خدمات سرانجام دے رہے ایک اور پولیس افسر کے مطابق: "لوگوں کو فاٹا جیسے دور دراز علاقوں سے اٹھا کر یہاں لایا جاتا ہے تاکہ راؤ انوار انہیں ٹھکانے لگا سکیں۔ اسی لیے تو کراچی میں اتنے پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ سب بدلے کے قتل ہیں۔" (ذرائع کے مطابق تازہ ترین کیس میں بھی نقیب اللہ کے ساتھ مارے جانے والے تین لوگ ایجنسیوں نے راؤ انوار کے حوالے کیے تھے۔ ان کے مطابق ان میں سے ایک شخص جنوبی پنجاب کے شہر اوچ شریف سے ڈیڑھ سال قبل اٹھایا جانے والا لاپتہ شخص محمد صابر تھا جس کے خلاف کوئی بھی کرمنل ریکارڈ نہیں ملا ہے۔)

کئی حاضر سروس اور ریٹائرڈ پولیس افسران کے مطابق بدل (بدلے) کی پختون روایت کی وجہ سے خیبر پختونخواہ یا فاٹا میں پولیس مقابلوں میں ہلاکت ایک نایاب چیز ہے۔ ایک پولیس افسر کے مطابق "مگر مقتدر حلقوں کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے گندے کاموں کی وجہ سے کراچی میں پولیس اہلکار کتوں کی طرح مارے جا رہے ہیں۔"

سندھ حکومت کے ایک ذریعے کے مطابق چار ماہ قبل اس وقت ایک عجیب صورتحال پیدا ہوگئی جب کئی فوجی حکام کراچی میں سندھ سیکریٹریٹ کے دورے پر تھے۔ میٹنگ میں چیف سیکریٹری سمیت مرحوم میر ہزار خان بجارانی بھی شامل تھے۔ فوجی افسران میں ایک لیفٹیننٹ جنرل، چار میجر جنرل، اور کچھ غیر ملکی فوجی حکام شامل تھے۔

ذریعے کے مطابق "ان میں سے ایک جنرل نے وزیرِ اعلیٰ سے پوچھا کہ صوبائی حکومت ایسے قاتل کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لے رہی تھی۔ شاہ صاحب نے سوال نظرانداز کر دیا، مگر جب اسی رینک کے ایک اور افسر نے سوال دہرایا، تو انہوں نے بالآخر جواب دیا، "بہتر ہوگا کہ آپ اپنے کور کمانڈر اور ایجنسیوں سے بھی یہ سوال پوچھیں۔"

وہ مکان جہاں پر نقیب اللہ محسود کو جعلی مقابلے میں قتل کیا گیا، گھر کی دیوار پر گولیوں کے نشان بھی دیکھے جا سکتے ہیں— فوٹو : وائٹ اسٹار

پاکستان کا سب سے بڑا اور بے ہنگم شہر کراچی ماورائے عدالت قتل سے ناآشنا نہیں ہے اور راؤ انوار وہ واحد پولیس افسر نہیں جو اس گھناؤنے کام میں ملوث رہے ہیں۔ چوہدری اسلم بھی اس حربے کو استعمال کرنے والوں میں شامل تھے یہاں تک کہ 2014 کے اوائل میں انہیں خودکش دھماکے میں ہلاک کر دیا گیا۔ کئی حاضرِ سروس پولیس افسران ایسے ہیں جو اس طرزِ عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں مگر راؤ انوار اپنے آپ میں منفرد ہیں۔ صوبائی وزارتِ داخلہ کے ڈیٹا کے مطابق راؤ انوار جن پولیس مقابلوں میں شامل تھے، ان کے علاوہ کراچی بھر میں سال 2017 میں کم از کم 304 پولیس مقابلے ہوئے جن میں 170 ہلاکتیں ہوئیں۔ یہ تعداد 2014 میں 1719 مقابلوں میں 609 اموات تھیں۔

ماورائے عدالت قتل کا جواز ہمیشہ اس بنیاد پر پیش کیا جاتا ہے کہ فوجداری نظامِ انصاف مجرمانہ سرگرمیوں کی حالیہ سالوں میں شدت سے نمٹنے کے لیے بہت کمزور ہے۔ اس حربے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ فوجداری نظامِ انصاف کا مکمل مرحلہ، یعنی ثبوت اکٹھے کرنے سے لے کر استغاثہ تک، سب کچھ خامیوں سے بھرپور اور کرپٹ ہے، جس کی وجہ سے مجرمان جلد ہی سڑکوں پر واپس آ جاتے ہیں۔ وہ گواہ جو بیان دینے کی جرات کرتے ہیں، اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے ہیں۔

مثال کے طور پر جب اپریل 2015 میں سماجی کارکن سبین محمود کو کراچی میں قتل کیا گیا، تو ان کے ڈرائیور بابو، جو کہ پچھلی سیٹ پر موجود تھے، نے مجسٹریٹ کے سامنے قاتلوں کو شناخت کر لیا تھا۔ بابو کی شناخت کو ملزمان سے محفوظ رکھنے کے لیے کوئی پردہ یا یکطرفہ شیشہ موجود نہیں تھا۔ ان کے ایک آشنا یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ بعد میں بابو نے بدحواسی کے عالم میں انہیں فون کیا کیوں کہ انہیں یقین ہو چکا تھا کہ ان کی جان خطرے میں ہے۔ 7 ستمبر کو سبین کے قتل کے چند ماہ بعد بابو کو بھی قتل کر دیا گیا۔

مگر قانونے مرحلے کی کمزوری کا جواب ماورائے عدالت قتل نہیں ہے۔ ایک سابق آئی جی پولیس کہتے ہیں، "یہ ایک پھسلن بھری ڈھلوان ہے جس کا انتہائی مظہر راؤ انوار ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ پولیس فوجداری نظامِ انصاف کا ایک حصہ ہے۔ پولیس میں اصلاحات تب تک مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتیں جب تک کہ عدلیہ، استغاثہ، جیل خانہ جات، اور دیگر بازوؤں کو بھی بین الاقوامی طریقوں اور بہترین روایات کے مطابق استوار نہیں کیا جاتا۔ عدالتوں میں فیصلوں میں تاخیر اور بدعنوانی، جبکہ جیلوں میں اصلاحی طریقوں کی عدم موجودگی سے پولیس اصلاحات بے فائدہ رہ جائیں گی۔ کوئی یہ بھی پوچھ سکتا ہے کہ جب 'یقینی' مجرمان سے نمٹنے کے لیے فوجی عدالتوں جیسا انتہائی غیر معمولی اقدام اٹھا لیا گیا تھا تو پھر ماورائے عدالت قتل کی کیا ضرورت تھی؟"

گولیوں کے خالی خول اور خون کے نشان کمرے میں نظر آ رہے ہیں، اس کمرے میں دو افراد کو مارا گیا تھا — فوٹو: وائٹ اسٹار

سابق آئی جی افضل شگری مانتے ہیں کہ پولیس مقابلے تین وجوہات کی بناء پر غیر فائدہ مند، بلکہ نقصان دہ ہیں۔ "یہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہیں، اور حالات کی تبدیلی پر آپ کو بچانے کے لیے کوئی نہیں آتا۔" وہ ان پولیس اہلکاروں اور افسروں کی مثال دیتے ہیں جنہوں نے نوّے کی دہائی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن میں شرکت کی اور پھر جب ایم کیو ایم نے کراچی میں اپنے پیر دوبارہ جمائے تو پارٹی کے عسکریت پسندوں نے ان کا خاتمہ کر دیا۔

وہ کمرہ جہاں 4 میں سے 2 افراد کو مارا گیا، دیوار پر گولیوں کے نشان نظر آ رہے ہیں — فوٹو: وائٹ اسٹار

ماہرِ قانون فیصل صدیقی ماورائے عدالت قتل پر انحصار کو "امن و امان قائم کرنے کا ایک خود غرض راستہ" قرار دیتے ہیں۔ "انصاف یا دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہین ہے۔ جیسے جیسے ریاست کمزور ہوتی جا رہی ہے، ویسے ویسے یہ زیادہ مطلق العنان ہوتی جا رہی ہے۔"

سالہاسال بے خوف کارروائیوں کے بعد بالآخر نوجوان نقیب اللہ کے قتل نے طویل عرصے سے منتظر تفتیش کا راستہ کھولا۔ مگر جہاں تک ان کی بات ہے تو وہ اب بھی قانون سے بالاتر ہیں۔ نقیب اللہ کی ہلاکت کی تفتیش کے لیے قائم کی گئی انکوائری کمیٹی سے تعاون کرنے سے انکار کے بعد راؤ انوار غائب ہوگئے۔ تین لوگوں کی ٹیم میں ایڈیشنل آئی جی کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ سندھ ثناءاللہ عباسی، ڈی آئی جی ساؤتھ آزاد خان، اور انوار کے باس ڈی آئی جی ایسٹ سلطان خواجہ شامل تھے جن کے ماتحت ضلع ملیر بھی آتا ہے۔ 15 سے 20 پولیس اہلکاروں کا ان کا اندرونی حلقہ، جس میں ان کے بھتیجے راؤ عامر بھی شامل ہیں، بھی اچانک غائب ہوگیا ہے اور ان کا کوئی اتا پتہ نہیں۔

منگل کے روز سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو حفاظتی ضمانت فراہم کی، اور انہیں آج (جمعے) کے روز عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا گیا۔

انکوائری رپورٹ میں نقیب اللہ کو بے گناہ قرار دیا گیا۔ راؤ انوار کے الزامات کے برعکس وہ سابق ٹی ٹی پی کمانڈر نہیں تھا، نہ ہی ڈیرہ اسماعیل خان میں جیل توڑنے میں ملوث تھا، نہ ہی بیت اللہ محسوس کا گن مین تھا۔ دستاویز میں کچھ مزید اہم تفصیلات بھی ہیں، مثلاً پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق نقیب اللہ کو دو دفعہ کمر میں گولیاں ماری گئیں۔

رپورٹ کے ساتھ منسلک اپینڈکس میں شاہ لطیف ٹاؤن تھانے پر حال ہی میں تعینات ہوئے تفتیشی افسر (ایس آئی او) انسپکٹر نصراللہ کا بیان بھی ہے۔ نقیب اللہ کا قتل اسی تھانے کی حدود میں ہوا تھا۔ انسپکٹر نصراللہ کا بیان اس پورے واقعے کو چھپانے کی ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن امان اللہ مروت کی گھناؤنی کوشش سے بھی پردہ اٹھاتا ہے، جو تب سے اب تک غائب ہیں۔ ایس آئی او نے کہا ہے کہ جب انہوں نے اس 'پولیس مقابلے' کی گہرائی میں جانے کی کوشش کی تو انہیں دھمکی دی گئی کہ اگر وہ پیچھے نہ ہٹے تو انہیں بھی ایسے ہی ٹھکانے لگا دیا جائے گا۔ سیکیورٹی خدشات اتنے ہیں کہ انکوائری کمیٹی نے اپنی سفارشات میں تجویز دی ہے کہ گواہان کو سندھ تحفظِ گواہان ایکٹ 2013 کے تحت تحفظ فراہم کیا جائے۔

راؤ انوار نے ایس ایس پی ملیر کے طور پر تقریباً سات سال گزارے ہیں (جس میں کچھ وقفے بھی شامل ہیں)۔ وہ اس سے پہلے بھی اسی ضلعے میں تعینات رہے ہیں جو کہ پولیس کے قوانین کے مکمل طور پر خلاف ہے۔ اب بھی مقامی افراد اس قدر خوفزدہ ہیں کہ نقیب اللہ کے خاندان کے علاوہ کوئی بھی شخص اپنے تجربات کے بارے میں بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ خوف اس قدر گہرا ہے کہ اٹھائے جانے اور پھر ایک جعلی پولیس مقابلے میں مار دیے جانے والے دو بھائیوں کے خاندان نے سہراب گوٹھ سے باہر منتقل ہوجانے کے باوجود ڈان سے بات کرنے سے منع کر دیا۔ ایک مقامی شخص کے مطابق انہیں یقین ہے کہ ریاست کے چند عناصر، جنہوں نے راؤ انوار کی اب تک پشت پناہی کی ہے، وہ اب بھی انہیں محفوظ رکھیں گے۔

اس کے علاوہ راؤ انوار نے صرف خود کے حوالے کیے جانے والے 'سخت گیر' دہشتگردوں کے خلاف 'پولیس مقابلوں' کی سربراہی نہیں کی۔ وہ ایک انتہائی غیر اخلاقی اور مجرمانہ حلقے کے سربراہ بھی تھے جس میں پولیس اہلکار اور مقامی مجرمان شامل تھے۔ یہ نیٹ ورک بھتہ خوری اور کئی کاروبار، مثلاً زمینوں پر قبضے، تعمیراتی کام کے لیے ریتی بجری اٹھانے، ایرانی پیٹرول کی اسمگلنگ، منشیات، فحاشی کے اڈے، اور غیر قانونی ہائیڈرنٹس میں ملوث بھی تھا۔ کوئی بھی شخص جو ان کے آڑے آتا یا پیسے دینے سے انکار کرتا، اسے اٹھا لیا جاتا، بند کر دیا جاتا، اس پر تشدد کیا جاتا، اور کچھ کیسز میں تو جعلی مقابلوں میں مار بھی دیا جاتا۔

ایک پولیس افسر جو کہ سابق ایس ایس پی کے کارناموں سے بخوبی واقف ہیں، کہتے ہیں کہ: "راؤ انوار ملیر میں اپنے دفتر سے کئی ارب روپے کا ایک مجرمانہ کاروبار چلا رہے تھے۔ پورا ضلع ان کا میدان تھا۔ ان کے ماتحت ایک پوری ٹیم تھی جو کسی سے ایک لاکھ، کسی سے 15 لاکھ روپے لیتی تو کسی کو قتل کر دیتی۔ مکمل طور پر لاقانونیت کا سماں تھا۔"

ملیر پولیس اسٹیشن پر تعینات ایک درمیانے رینک کے پولیس افسر، جنہوں نے راؤ انوار کے ساتھ بھی کام کیا ہے، کے مطابق نقیب اللہ کو اٹھائے جانے کے پیچھے بنیادی مقصد پیسہ تھا۔ انہوں نے بتایا کہ "سہراب گوٹھ کے دکانداروں میں موجود راؤ انوار کے مخبروں کو معلوم ہوا تھا کہ نسیم کے پاس کافی بڑی رقم موجود تھی جس سے وہ دکان خریدنا چاہتا تھا۔"

"دو پولیس اہلکار سب انسپکٹر یاسین ڈھکو اور اسسٹنٹ سب انسپکٹر اکبر ملاح نے نقیب اللہ اور اس کے دو دیگر ساتھیوں کو ابو الحسن اصفہانی روڈ پر ایک ریسٹورینٹ سے اٹھایا۔ انہوں نے اس کے دوستوں کو چھوڑ دیا، مگر 90 لاکھ روپے نکلوا لینے کے باوجود وہ اس پر تشدد کرتے رہے اور 2 کروڑ روپے اور دینے کا مطالبہ کرتے رہے۔ تب تک وہ اس قدر بری حالت میں تھا کہ انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اسے زندہ چھوڑنا بے وقوفی ہوگی۔"

دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں ملیر کیسز کی تفتیش کرنے والے اعلیٰ پولیس افسران خاموش رہے، وہیں سہراب گوٹھ مارکیٹ کی دکاندار انجمن کے سربراہ بھی غائب ہیں۔

ملیر میں تعینات ایک ڈی ایس پی کے مطابق گڈاپ، میمن گوٹھ اور گلشنِ معمار میں ایسے فارم ہاؤسز ہیں جہاں راؤ اور ان کے کارندے لوگوں کو محبوس رکھتے، کبھی کبھی تو ایک ہی جگہ پر 40 بندوں کو بھی۔ وہ کہتے ہیں، "خدا ہی جانتا ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں میں جب سے راؤ انوار اور ان کی ٹیم غائب ہے، تو ان بندوں کا کیا ہوا ہوگا۔"

راؤ انوار کے اثر و رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف ایک دفعہ کو چھوڑ کر ماضی میں جب بھی انہیں ایس ایس پی ملیر کے عہدے سے معطل کیا گیا، تو ان کی پسند کے ہی کسی شخص کو ان کی جگہ پر تعینات کیا گیا۔ ان کی جگہ تعینات ہونے والے افسر ایس پی ملیر ڈاکٹر محمد نجیب خان ہوتے، جو کہ راؤ انوار کی بحالی کے بعد ایس پی کے عہدے پر واپس چلے جاتے۔

یہاں تک کہ سندھ کے وزیرِ اعلیٰ بھی اس پولیس افسر کے خلاف بے یار و مددگار تھے جسے معلوم تھا کہ وہ صوبے کے انتظامی سربراہ سے بھی زیادہ طاقت رکھتا ہے۔ ایم کیو ایم رہنما اظہار الحسن کو گرفتار کرنے پر معطل ہونے والے راؤ انوار نے اپنی معطلی کو عدالت میں چیلنج کر دیا۔ چند ہفتوں بعد وہ دوبارہ اپنی سیٹ پر تھے۔

کسی کو بھی اس پر شک نہیں کہ اچھی شہرت رکھنے والے ایس ایس پی عدیل چانڈیو، جنہیں راؤ انوار کی جگہ پر تعینات کیا گیا ہے، ملیر پولیس سے کرپشن کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ (بھلے ہی راؤ انوار تکنیکی طور پر ایس پی تھے، انہیں ایس ایس پی کا چارج دیا گیا تھا — ریاست کے خفیہ عناصر کا آلہء کار ہونے کے یہ فوائد ہیں۔) ایس ایس پی عدیل کہتے ہیں، "میں روزانہ دو گھنٹے ایک کھلی کچہری منعقد کرتا ہوں۔ چنانچہ سب سے پہلے میں ایس ایس پی کے دفتر کو عوام کے لیے مزید قابلِ رسائی بنا رہا ہوں، اور دوسرا یہ کہ میں اپنے علاقے میں حکومت یا عوام کو نقصان پہنچانے والی کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کو برداشت نہیں کروں گا۔"

وہ کہتے ہیں کہ اس وجہ سے انہوں نے آتے ہی 55 پولیس اہلکاروں کا تبادلہ کر دیا ہے، جس میں ملیر کے تمام ایس ایچ او شامل ہیں۔ (ضلع ملیر کراچی کے چھے ضلعوں میں سے سب سے بڑا ہے اور اس میں 12 تھانے ہیں۔ مگر ضلع شرقی کے چار تھانے اور ضلع غربی کا ایک تھانہ بھی ایس ایس پی ملیر کی حدود میں آتا ہے، چنانچہ ان تھانوں کی کل تعداد 17 ہے۔)

ملیر کا وہ علاقہ جہاں سے ریت اور بجری نکالی جاتی ہے، یہ ماحولیات کیلئے بھی خطرناک ہے — فوٹو : وائٹ اسٹار

مگر ضلعے پر کنٹرول واپس حاصل کرنے کے لیے پولیس اہلکاروں کے تبادلوں سے کہیں زیادہ کچھ درکار ہے۔ ایک اور سینیئر پولیس افسر کے مطابق "راؤ انوار کا ملیر پر اثر و رسوخ نہایت زیادہ تھا کیوں کہ وہ کئی سالوں سے وہاں تعینات تھے۔ ان کے بازو ہر جگہ پھر پھیلے ہوئے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ان کے لیے کون کام کر رہا ہے۔"

ملیر ضلعے میں گہرائی میں ڈان کی ریکی کے دوران جن دو اہلکاروں سے ملاقات ہوئی، انہوں نے بتایا کہ سابق ایس ایس پی کے مخبر اب تک انہیں خبریں فراہم کرتے ہیں اور لوگوں کی نقل و حرکت سے آگاہ کیے رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک کا کہنا ہے، "ایس ایس پی چانڈیو کو راؤ انوار کے حلقے کی وسعت کو سمجھنے میں بہت وقت لگے گا۔ یہ نہ بھولیں کہ انہوں نے علاقے میں اپنے سخت وفادار بھی پیدا کر رکھے ہیں۔ کیوں کہ بہرحال یہ سب لوگ کسی نہ کسی حد تک فائدہ اٹھانے والوں میں سے تھے۔ پولیس میں ان کے کچھ قریبی ساتھی اب تک پولیس میں موجود ہیں۔"

ان کے ساتھی ہنستے ہوئے کہتے ہیں، "یہ ایسا ہی ہے جیسے بلی کو دودھ کی رکھوالی پر تعینات کر دیا جائے۔" مقامی پولیس اہلکاروں کے مطابق انسپکٹر عرفان اللہ بنگش ایک مثال ہیں جو سوکھ چکی ملیر ندی سے ریتی اور بجری نکالنے کے کاروبار کی نگرانی کرتا ہے۔

ایک ایسے علاقے میں جہاں بحریہ ٹاؤن کراچی اور ڈی ایچ اے سٹی کراچی کی دروازہ بند اسکیمیں تیار ہو رہی ہیں، وہاں سندھ پیپیلز پارٹی کے اعلیٰ عہدیداران کے کہنے پر، اور خفیہ طاقتوں سے مراسم بنائے رکھنے کے لیے زمینوں پر قبضوں میں مدد دینے کے لیے راؤ انوار کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ کچھ ریٹائرڈ فوجی افسران کے ساتھ ساتھ ان کا اور ایس ایچ او خان نواز کا نام وہ مقامی افراد بار بار لیتے ہیں جو سالہاسال تک سینچی گئی زمین سے بے دخل کیے جانے کے خطرے تلے زندگی جی رہے ہیں۔

مگر جو چیز لوگوں کی زیادہ معلومات میں نہیں ہے، وہ ریتی بجری کے کاروبار میں ان کی شراکت ہے، بھلے ہی یہ کام ایک عرصے سے جاری ہے۔ یہ کاروبار اس قدر منافع بخش ہے کہ اسے سونا ریتی کہا جاتا ہے۔ اس سرگرمی نے ضلے کے کئی علاقوں میں زیرِ زمین پانی کی سطح خوفناک حد تک گرا کر سرسبز و شاداب کھیتوں کو بنجر زمینوں میں تبدیل کر دیا ہے، جس سے ایک ماحولیاتی المیہ جنم لے رہا ہے۔ چوں کہ ملیر کراچی کا گرین بیلٹ ہے، اس لیے پورے شہر پر اس کے شدید اثرات پڑیں گے۔

خصوصاً ملیر کا شاہ لطیف ٹاؤن، جہاں ریتی بجری اٹھانا معمول ہے، وہاں کا زمینی منظرنامہ مکمل طور پر برباد ہو چکا ہے۔ سالہا سال تک ہزاروں مشینوں کے ذریعے کھدائی کی وجہ سے بیشتر جگہوں پر گہری اور وسیع و عریض کھائیاں پیدا ہو چکی ہیں۔

ان علاقوں کو 'ڈھکا' کہا جاتا ہے۔ ہر شام 8 سے 9 بجے کے درمیان صبح تک ڈمپروں کی قطاریں ہر ڈھکے کے پاس لگ جاتی ہیں۔ کھدائی کی مشینیں ریتی اٹھاتی ہیں اور ڈمپر بھر دیتی ہیں، جو اسے گوداموں تک لے جاتے ہیں، جہاں سے وہ تعمیراتی سائٹس کو فروخت کی جاتی ہے۔ ایک ڈمپر بھرنے میں پانچ سے چھے منٹ لگتے ہیں۔ جمعے کی چھٹی ہوتی ہے۔

کچھ عرصہ قبل تک ریتی بجری اٹھانے کے کاروبار میں خود ملوث رہ چکے عصمت اللہ خان، اور نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مقامی پولیس اہلکاروں نے ڈان کو بتایا کہ اس کاروبار میں زیادہ تر افراد پختون برادری کے ہیں، اور ٹھیکیداروں اور ایجنٹوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔

ہر ٹھیکیدار پولیس کو فی رات فی ڈمپر 20,000 روپے تک دیتا ہے، پھر چاہے کاروباری گھنٹوں میں کتنی بھی دفعہ ڈمپر کی بھرائی ہو۔ ایک ڈھکے سے ایک رات میں 100 ڈمپر تک ریتی بجری نکال سکتے ہیں۔

راؤ انوار کی معطلی سے پہلے تک ہر پولیس تھانے سے منسلک بیٹر پیسہ اکٹھا کرتے تھے جو کہ سیدھا انہیں اور ان کے سیاسی باسز کو جاتا تھا۔ اس کام میں ملوث پولیس اہلکار بھی اپنے اپنے رینک کے حساب سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل تھے۔ کچھ مقامی سیاستدان بھی اپنا حصہ لیتے تھے۔ عصمت اللہ خان کے مطابق "ہر پولیس اسٹیشن جو ایس ایس پی ملیر کی حدود میں آتا ہے، ہر رات چار لاکھ سے پانچ لاکھ روپے تک کماتا ہے۔ اور یہ تو ایک محتاط اندازہ ہے۔ آپ خود اندازہ لگا لیں کہ راؤ انوار کس قدر کماتے ہوں گے۔"

ضلع ملیر میں ریتی بجری اٹھانے پر کئی سالوں سے دفعہ 144 نافذ ہے مگر جب ضلعی اور قانون نافذ کرنے والے افسران خود ہی اس کاروبار میں شامل ہوں تو پھر اس علاقے میں عوامی زمین کی اس بربادی کو کون روکتا؟

پولیس ذرائع کے مطابق نئے ایس ایس پی ملیر نے ریتی بجری کے کام پر پابندی تو لگا دی ہے مگر مقامی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ایس ایس پی یہ نہیں جانتے کہ یہ کام اب تک مکمل طور نہیں رکا ہے، کیوں کہ اس کے فائدے اس کے نقصانات سے کہیں زیادہ ہیں۔ ڈان کو اپنی تحقیق کے دوران کئی ڈھکوں پر ٹائروں اور شاول کے تازہ نشانات دکھائی دیے۔

مٹی کے تودے پر شاول کے تازہ نشانات دیکھے جا سکتے ہیں — فوٹو : وائٹ اسٹار

ایرانی پیٹرول کی اسمگلنگ ایک اور منافع بخش ذریعہء آمدن ہے۔ ضلع غربی کے ایک ایس پی بتاتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے کہ ہر منطق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ضلع شرقی کے چار تھانے (سہراب گوٹھ، سائٹ، سچل اور مبینہ ٹاؤن) اور ضلع غربی کا گلشنِ معمار ایس ایس پی ملیر کی حدود میں آتے ہیں۔ "اگر آپ نقشے میں دیکھیں تو یہ پانچ تھانے حب سے ملیر کے ذریعے مشرق تک ایک راہداری بناتے ہیں جس سے اسمگلنگ بلا روک ٹوک جاری رہ سکتی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ ان مجرمانہ سرگرمیوں میں ملیر پولیس اکیلی ہے۔ مگر راؤ انوار کی بات کریں تو ان مجرمانہ سرگرمیوں کے علاوہ انہیں انسانی جان کی ذرا بھی قدر نہیں ہے، جس کی وجہ سے وہ خفیہ طاقتوں کے لیے اس قدر کارآمد آلہءِ کار ہیں۔

پولیس حکام نے انکشاف کیا ہے کہ ایس ایس پی ملیر بننے کے بعد سے اب تک راؤ انوار نے دبئی کے 74 دورے کیے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ تقریباً ہر ماہ ایک دورہ۔ ان کی 95 ہزار روپے کی ماہانہ تنخواہ اس لائف اسٹائل کو بمشکل ہی سہارا دے سکتی ہے۔

سندھ حکومت کے ایک سینیئر ذریعے نے تصدیق کی کہ کسی بھی موقع پر راؤ انوار نے ملک چھوڑنے کی اجازت طلب نہیں کی، جو کہ بیرونِ ملک جا رہے ہر سرکاری ملازم پر حاصل کرنا لازم ہوتی ہے۔

اس بات پر بھی سوال کرنا چاہیے کہ ایف آئی اے کراچی ایئرپورٹ نے چار سال قبل تک سندھ پولیس میں ایس ایس پی رہ چکے ڈپٹی ڈائریکٹر عاصم قائمخانی کی زیرِ سربراہی انہیں قانونی دستاویزات کے بغیر ملک سے باہر کیسے جانے دیا۔ اس کے بجائے راؤ انوار کا ایس ایچ او تھانہ ایئرپورٹ کے طور پر تعینات رہنے کا مطلب تھا کہ جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ، ہر طرح کی ممنوعہ اشیاء اسمگل کرنے والے تمام تر کھیپیوں (اسمگلروں) کے ساتھ راؤ انوار کو کسی بھی حیرت میں ڈالنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کے علاوہ ایئرپورٹ ضلع ملیر میں ہے۔

ڈان نے دبئی میں راؤ انوار کے متعلق چند تفصیلات حاصل کی ہیں۔ انہیں ان کی اہلیہ ثمینہ انور احمد خان کے نام پر اقامہ جاری کیا گیا ہے جو انہیں امارات میں کاروبار کرنے سے روکتا ہے۔

ان کے تین بچے — ایک بیٹا اور دو بیٹیاں — قانونی طور پر مسز خان کے ساتھ رہتے ہیں۔ مسز خان کو دبئی میں قائم اے اے اے ٹریڈنگ کمپنی کے امر احمد خان کا شراکت دار سمجھا جاتا ہے جسے ویسے تو اشیائے خور و نوش کا کاروبار کرنا چاہیے، مگر یہ کمپنی کوئی کاروبار نہیں کرتی۔

راؤ انوار کی طاقت کا راز صرف اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا بننا نہیں ہے، بلکہ وہ سندھ کے سیاسی منظرنامے پر موجود وی وی آئی پیز سے اپنے قریبی تعلقات سے بھی کافی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ انہیں سب سے پہلے مارچ 2008 میں انسپکٹر کے عہدے سے ڈپٹی سپرینٹنڈنٹ پولیس کے عہدے پر ترقی دی گئی، اور صرف چھے بعد بعد جب آصف علی زرداری نے صدر کے طور پر حلف اٹھایا تو دو ہفتوں کے اندر انہیں 18 ستمبر 2008 کو ایس پی بنا دیا گیا۔ بغیر باری کی یہ ترقی جولائی 2013 میں عدالتی حکمنامے کی وجہ سے ریورس ہوگئی تھی۔

ایک دلچسپ کہانی سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیس کمان میں ان سے کہیں سینیئر پولیس افسران بھی راؤ انوار کے سامنے کس طرح جھک جاتے ہیں۔ کلفٹن پولیس کی ایک ٹیم نے ایک دفعہ ایک کاروباری شخصیت کے اپارٹمنٹ پر چھاپہ مارا جو کہ اب سینیئر پی ٹی آئی رہنما بھی ہیں۔ یہ شخص اس وقت تین حاضر سروس ڈی آئی جیز کے ساتھ تھے۔

جب سینیئر حکام نے احتجاج کیا تو پولیس پارٹی نے انہیں راؤ انوار سے بات کرنے کے لیے کہا، جنہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ ان شخص کے پاس پولیس کے ساتھ جانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس پر راؤ انوار سے دو رینک سینیئر ڈی آئی جیز نے کلفٹن پولیس سے کم از کم اس وقت تک انتظار کرنے کے لیے کہا جب تک کہ وہ وہاں سے چلے نہیں جاتے۔

مگر پھر بھی آپ اسے جیسے بھی دیکھیں، ذمہ داری آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ پر عائد ہوتی ہے۔ سول سوسائٹی کے کارکنان نے اس یقین پر کہ خواجہ سندھ پولیس میں کچھ نظم و ضبط لائیں گے، انتھک مہم چلائی، جس کے بعد سپریم کورٹ نے حال ہی میں سندھ میں سینیئر پولیس حکام کی تعیناتیوں اور تبادلوں کا اختیار انہیں لوٹا دیا۔ سندھ حکومت نے انہیں ان سے یہ اختیار اس لیے چھین لیا تھا تاکہ زمین، شوگر ملز، اور ووٹر لسٹوں میں جعلسازی کی مجرمانہ سرگرمیاں بلا روک ٹوک جاری رہ سکیں۔

واقفانِ حال یہ تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ آئی جی اپنے پیشروؤں سے کئی انداز میں بہتر ہے، مگر پھر بھی ان کا کہنا ہے کہ خواجہ نے صوبے کی اعلیٰ ترین شخصیات کے ساتھ کئی 'سمجھوتے' کیے ہیں۔ سندھ حکومت کے ایک افسر کے مطابق، "جب ایک آئی جی تعیناتی یا تبادلہ کرتا ہے تو اس کے لیے وہ وزیرِ اعلیٰ سے مشورہ کرتا ہے، بھلے ہی اسے اس کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایس پی ملیر کو نہیں ہٹایا، اور نہ ہی جامشورو، خیرپور، لاڑکانہ اور نوابشاہ کے ایس ایس پیز کو۔ یہ تمام ضلعے پی پی پی کے گڑھ ہیں۔ دیگر تمام ایس ایس پیز کے تبادلے کر دیے گئے تھے۔"

ایس ایس پی جامشورو عرفان بہادر کا معاملہ خصوصاً دلچسپی کا حامل ہے۔ بہادر تقریباً ایک سال تک برطانیہ میں تھے۔ ان کی اہلیہ ٹیئر 2 ویزا کی مرکزی درخواست دہندہ تھیں، اور بہادر بھی ان کے ساتھ ویزا کے حصول کا انتظار کر رہے تھے۔ ڈیوٹی سے طویل عرصے تک غیر حاضری کے بعد واپس آتے ہی انہیں ایس ایس پی جامشورو تعینات کر دیا گیا۔

سندھ حکومت کے ذریعے کے مطابق یہ بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین اور زرداری کے قریبی ساتھ ملک ریاض تھے جنہوں نے "عرفان بہادر کو اس وقت جامشورو میں تعینات کروایا جب وہ بحریہ ٹاؤن کراچی کو اس ضلعے تک توسیع دے رہے تھے۔" یہ وہ سمجھوتے اور معاہدے ہیں جن کی وجہ سے سندھ پولیس ایک غارت گر ریاست کی کارندہ بن چکی ہے۔

پولیس کی جانب سے آدھی رات کو دیہات پر چھاپے مارے گئے ہیں، لوگوں پر تشدد کیا گیا ہے، اٹھایا گیا ہے، جھوٹے مقدمات میں پھنسایا گیا ہے، اور دھمکایا گیا ہے اگر زمین سے دستبردار نہیں ہوئے تو انہیں جھوٹے پولیس مقابلے میں مار دیا جائے گا۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب مقامی افراد نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ راؤ انوار کی پولیس نے کس طرح بحریہ ٹاؤن کے غنڈوں کے ساتھ مل کر دیہاتیوں کو ڈرا دھمکا کر رکھا ہوا تھا۔

"بحریہ 2008 سے ہمارے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ غصے سے لرزتی ہوئی آواز میں زرینہ جوکھیو نے بتایا کہ "انہوں نے میری زمین پر موجود دو کنوئیں تباہ کر دیے۔ پوشیدہ نمبر پلیٹوں والی پولیس موبائیلیں انہیں تحفظ فراہم کر رہی تھیں۔ ہم مدد کے لیے کہاں جائیں اگر پولیس اور مقامی ایم پی اے ہماری مدد نہیں کرتے؟"

اس دوران سابق ایس ایس پی کے ساتھ کیا ہونے کے امکانات ہیں؟ ایک سینیئر پولیس افسر کے مطابق ذمہ داران اب بھی "ان پر مقدمات چلانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ وہ صرف انہیں ہٹانا چاہتے تھے۔ پولیس، ایجنسیوں اور سیاستدانوں کا 100 فیصد منصوبہ ہے کہ انہیں بغیر کسی سزا کے بچا لیا جائے گا۔"

مگر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ راؤ شاید اب خود ذمہ داری بن گئے ہوں۔ بہت زیادہ کچھ جاننا بھی خطرناک ہوسکتا ہے۔

اضافی رپورٹنگ از عمران ایوب، اسحاق تنولی

— شناخت کے تحفظ کے لیے چند نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔


یہ رپورٹ ڈان اخبار میں 16 فروری 2018 کو شائع ہوئی۔