زینب قتل کیس: ملزم عمران کے وکیل مقدمے سے دستبردار
لاہور: کوٹ لکھپت کی انسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) میں زیرسماعت زینب قتل کیس کے مرکزی ملزم محمد عمران کے وکیل مہر شکیل ملتانی نے اپنے موکل کا مقدمہ لڑنے سے معذرت کرتے ہوئے اس کیس سے دستبردار ہوگئے۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج سجاد احمد نے زینب قتل کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔
ملزم عمران کے وکیل مہر شکیل ملتانی نے کہا کہ عمران ہی زینب سمیت 9 بچیوں کا قاتل ہے، یہ ایک درندہ صفت انسان ہے، اسے سخت سے سخت سزا دے دی جائے۔
مہر شکیل ملتانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملزم نے عدالت میں مجھ سے کہا تھا کہ مجھے قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے، تاہم اس نے بعد میں اقبالِ جرم بھی کر لیا۔
زینب قتل کیس میں ملزم عمران کے وکیل مہر شکیل ملتانی کی دستبردار کے بعد سرکاری وکیل محمد سلطان کو ان کا وکیل مقرر کردیا گیا۔
گزشتہ سماعت کے دوران اے ٹی سی کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ملزم عمران کے وکیل نے بتایا تھا کہ قانون کی نظر میں ڈی این اے کی کوئی حیثیت نہیں جبکہ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران اس قتل کا مجرم نہیں اور اس کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت بھی موجود نہیں ہے۔
وکیل ملزم عمران نے کہا تھا کہ جب تک جرم ثابت نہیں ہو جاتا تب تک عمران کو مجرم نہیں کہا جاسکتا، اور ساتھ ہی یہ بھی دعویٰ کیا کہ ملزم عمران نے کہیں بھی اہنا جرم نہیں مانا اور اس کیس میں عمران ملزم نہیں ہے۔
قصور میں 6 سالہ زینب کا قتل
صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔
جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا اس وقت ان کے والدین عمرے کی ادائیگی کے سلسلے میں سعودی عرب میں تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: زینب قتل: ملزم عمران مزید 7 بچیوں کے قتل کیسز میں نامزد
5 روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تو ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔
بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا تھا، جس کے بعد لاش کو ورثا کے حوالے کردیا گیا تھا تاہم یہ بھی اطلاعات تھی کہ بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
بچی کی لاش ملنے کے بعد قصور میں پُر تشدد مظاہروں کا آغاز ہوا اور میں شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب اہلِ علاقہ نے مشتعل ہو کر ڈی پی او آفس پر دھاوا بول دیا اور دروازہ توڑ کر دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔
اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی تھی جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
10 جنوری کو بچی کے والدین عمرے کی ادائیگی کے بعد پاکستان پہنچے اور انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے ننھی زینب کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی تھی۔
بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے گھر کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان سے ملاقات کر کے مجرموں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: زینب قتل کیس: 'تالیوں کے بجائے افسوس کی ضرورت تھی'
23 جنوری کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے والد کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ زینب کے قاتل کو گرفتار کرلیا گیا، یاد رہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ملزم عمران کو پاکپتن سے گرفتار کیا گیا تھا۔
24 جنوری 2018 کو قصور میں کم سن زینب کے قتل کے الزام میں گرفتار ملزم کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جبکہ عدالت نے ملزم کو 14 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا۔
6 فروری 2018 کو زینب قتل کیس میں پولیس نے اہم پیش رفت کرتے ہوئے مرکزی ملزم عمران کو مزید 7 بچیوں کے ریپ اور قتل کیسز میں نامزد کر دیا تھا اور لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت سے ملزم کا مزید 3 روزہ ریمانڈ بھی حاصل کیا تھا۔
8 فروری پنجاب پولیس نے زینب سے متعلق کیس میں ملزم عمران کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرکے ملزم کا مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کیا تھا۔
9 فروری کو اے ٹی سی نے قصور میں ریپ کے بعد قتل کی جانے والی زینب کے کیس میں گرفتار ملزم عمران کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کردیا۔