فٹ پاتھ پر چرسی تو قبول ہے مگر اسکول نہیں
’محترمہ اس اسکول میں پڑھائی نہیں ہوتی، یہ تو بس کمائی کا ذریعہ ہے۔‘ اسکول کے قریب واقع ایک دکان پر بیٹھے ایک صاحب نے سگریٹ سلگاتے ہوئے جیسے مجھے ایک بریکنگ نیوز دی۔ شاید وہ جان چکے تھے کہ میں کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کی مزار کے قریب واقع فٹ پاتھ اسکول پر اسٹوری کرنے آئی ہوں۔
کیا آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے جو مجھے اس اہم خبر کو دینے میں مدد دے سکے؟ میں نے اگلا سوال کیا۔ جواب ملا کہ ’ثبوت کیا دینا، سارے لوگ جانتے ہیں کہ یہاں کیا ہوتا ہے۔‘ میں نے ان حضرت سے اُن کا تعارف مانگا تو معلوم ہوا کہ وہ وہاں کسی اسٹیٹ ایجنسی میں کام کرتے ہیں ان کی جانب سے جب یہ دعویٰ کیا جارہا تھا تب سنڈے، منڈے، ٹیوز ڈے کی باآوازِ بلند آوازیں میرے کانوں سے ٹکرا رہی تھیں۔
میں نے اُن حضرت کا شکریہ ادا کیا اور اسکول جا پہنچی۔ افناس علیشاہ زیدی اس اسکول کو گزشتہ دو برس سے چلا رہی ہیں۔ وہ یہ کیوں کر رہی ہیں؟ انہیں اس سے کیا حاصل ہے؟ وہ اس سے کیا کچھ بنا چُکیں؟ میری دلچسپی اس بات میں نہیں تھی، بلکہ میں یہ جاننا چاہتی تھی کہ چوں کہ سندھ حکومت تمام فٹ پاتھ اسکولوں کو ہٹانے اور اپنی تحویل میں لینے کا ارادہ رکھتی ہے اگر ایسا ہوجاتا ہے تو کون کون سے فٹ پاتھ اسکول متاثر ہوں گے اور بچوں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا وہ یہ اسکول ختم ہونے کے بعد سرکاری اسکول میں پڑھنے لگیں گے جہاں یقیناً انہیں ہونا چاہیے، لہٰذا آج میں نے ان کے اسکول کا رخ کیا۔