پاکستان

انتظار قتل: ’غلطی سے زیادہ لیکن مجرمانہ سازش نہیں‘

اے سی ایل سی اہلکاروں کی فائرنگ سے انتظار احمد کی ہلاکت ایک سفاکانہ عمل ہے، سی ٹی ڈی انچارج ڈی آئی جی پرویز چانڈیو
|

کراچی میں اینٹی کار لفٹنگ سیل (اے سی ایل سی) کے اہلکاروں کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے نوجوان کے معاملے میں تحقیقات کاروں نے کہا ہے کہ انتظار کے قتل میں کوئی مجرمانہ سازش نہیں تھی اور سینئر پولیس افسر مقدس حیدر کے قتل کے پیچھے ملوث ہونے کے ثبوت بھی نہیں ملے، تاہم یہ واقعہ ایک غلطی سے زیادہ ہے۔

کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے اس واقعے کو سفاکانہ قتل قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 173 کے تحت یہ رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جائے گی تاکہ ابتدائی طور پر گرفتار اے سی ایل سی کے 9 اہلکاروں کا ٹرائل شروع کیا جاسکے۔

خیال رہے کہ انتظار کے والد اشتیاق احمد کی جانب سے پولیس تفتیش پر تحفظات کے اظہار کے بعد انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کی جانب سے سی ٹی ڈی کو یہ ٹاسک دیا گیا تھا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرے۔

مزید پڑھیں: انتظار قتل کیس: مفرور ملزم کی درخواست ضمانت منظور

اس حوالے سے سی ٹی ڈی انچارج ڈی آئی جی پرویز احمد چانڈیو کا کہنا تھا کہ انتظار کی ہلاکت کے معاملے میں کوئی ایسے شواہد نہیں ملے جس سے یہ ثابت ہو سکتا کہ قتل کے پیچھے مجرمانہ سازش تھی۔

سی ٹی ڈی نے اپنے تحقیقات میں کہا کہ اس واقعے میں یہ بھی ظاہر نہیں ہوا کہ یہ اے سی ایل سی حکام کی غلطی تھی بلکہ یہ ایک نوجوان کا سفاکانہ قتل تھا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کے پاس ’ قتل کا لائنسس‘ نہیں بلکہ پولیس صرف اپنا دفاع اس وقت کرسکتی ہے جب ان پر کوئی حملہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ جب اے سی ایل سی اہلکاروں نے نوجوان کی گاڑی کو روکا تو انہوں نے اس کی تلاشی نہیں لی، یہاں تک کہ گاڑی کے شیشے اتاروا کر یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی کہ نوجوان آخر کون ہے۔

ڈی آئی جی سی ٹی ڈی نے بتایا کہ اے سی ایل سی اہلکاروں نے نوجوان کے سامنے یہ بات تک ظاہر نہیں کی کہ ان کا تعلق پولیس سے ہے اور انہوں نے اس کیس میں اتنے غیر ذمہ دارانہ رویہ کا مظاہرہ کیا جس کے بعد سی ٹی ڈی اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ ایک سفاکانہ قتل تھا۔

سی ٹی ڈی کی تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ انتظار کے قتل کے پیچھے کا عمل تمام 9 اے سی ایل سی اہلکاروں کا عام عمل تھا، تاہم اس واقعے میں دو اے سی ایل سی اہلکار دانیال اور بلال نے نوجوان کی گاڑی پر فائرنگ کی لیکن باقی 7 اہلکاروں کا عمل میں ان سے مختلف نہیں تھا اور وہ سب اس واقعے میں شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: 'انتظار احمد کا قتل پولیس کی ناکامی کی وجہ سے ہوا'

انہوں نے بتایا کہ باقی اہلکاروں نے ان اہلکاروں کو نہ تو روکا اور نہ ہی فائرنگ سے ابتدائی طور پر زخمی ہونے والے انتظار کو ہسپتال پہنچانے میں مدد کی بلکہ تمام اے سی ایل سی اہلکار کرائم سین سے غائب ہوگئے۔

سابق ایس ایس پی کا کردار

اس واقعے میں اے سی ایل سی کے سابق ایس ایس پی مقدس حیدر کے کردار کے حوالے سے ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ انتظار کے والد سمیت کسی بھی دیگر ذرائع سے مقدس حیدر کے قتل میں ملوث ہونے کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔

انہوں نے کہا کہ سی ٹی ڈی نے انتظار احمد کے والد کے نئے الزامات سے متعلق بھی تحقیقات کی لیکن مقدس حیدر کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں ملے تاہم ہم کسی بھی وقت اس پہلو پر مزید تحقیقات کے لیے موجود ہیں۔

خیال رہے کہ 13 جنوری 2018 کو کراچی کے علاقے ڈیفنس میں پولیس اہلکاروں نے اشارے پر گاڑی نہ روکنے پر کار پر فائرنگ کردی تھی، جس میں 19 سالہ نوجوان انتظار جاں بحق ہوگیا تھا، جس کے بعد وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ سندھ نے نوٹس لیا تھا اور واقعے میں ملوث اہلکاروں کو گرفتار کرلیا تھا۔