پاکستان

جعلی ڈگری کیس: شعیب شیخ، تمام ملزمان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم واپس

اگر تمام ملزمان عدالت میں پیش نہیں ہوتے تو ان کی ضمانت کی منسوخی کی درخواست ٹرائل کورٹ کو دیں، سپریم کورٹ
|

سپریم کورٹ نے ایگزیکٹ جعلی ڈگری از خود نوٹس کیس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی ایف آئی آر میں نامزد شعیب شیخ سمیت دیگر تمام ملزمان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کا حکم بول ملازمین اور سینئر صحافیوں سمیع ابراہیم اور جاوید سومرو کی درخواست پر کچھ دیر بعد واپس لے لیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایگزیکٹ کے سی ای او اور بول نیوز کے مالک شعیب شیخ کو حکم دیا کہ وہ تحریری طور پر جواب جع کرائیں کہ وہ ملک سے باہر نہیں جائیں گے، ساتھ ہی ٹرائل کورٹ کو حکم دیا کہ اگر تمام ملزمان عدالت میں پیش نہیں ہوتے تو ان کی ضمانت کی منسوخی کی درخواست ٹرائل کورٹ کو دیں۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ایگزیکٹ جعلی ڈگری از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران عدالت نے حکم دیا کہ سندھ ہائی کورٹ ایگزیکٹ سے متعلق زیر التوا اپیلوں پر بینچ تشکیل دیکر مقدمے کا فیصلہ ایک ماہ میں کریں اور مقدمے کی سماعت کا آغاز پیر سے کریں، اس کے علاوہ اسلام آباد ہائیکورٹ 22 فروری سے مقدمے کی سماعت کرے جبکہ بینچ ایک ماہ میں فیصلہ کرے۔

مزید پڑھیں: ایگزیکٹ جعلی ڈگری اسکینڈل: سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے لیا

عدالت عظمیٰ نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کراچی کو ایگزیکٹ کے معاملے کا فیصلہ 2 ہفتے میں کرنے جبکہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف ایف آئی اے اپیل دائر کرنے کی ہدایت بھی کی۔

اس سے قبل سماعت کے دوران ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ کیا ایگزیکٹ ایک کمپنی ہے اور کب سے ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ ہے؟ جس پر ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ جولائی 2006 سے پہلے یہ کمپنی رجسٹر ہے اور اس کا ہیڈ آفس کراچی میں خیابان اقبال میں قائم ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ڈی جی ایف آئی اے سے سوال کیا کہ ایگزیکٹ کا کاروبار کیا ہے؟ جس پر ڈی جی ایف آئی نے بتایا کہ سافٹ ویئر کی برآمدات کا بزنس ظاہر کیا گیا ہے لیکن ایگزیکٹ کے 10 کاروباری یونٹ ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 70 فیصد ریونیو آن لائن یونیورسٹی سے آتا ہے اور ایگزیکٹ کی 330 یونیورسٹیاں تھیں۔

جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا ایگزیکٹ کا کسی یونیورسٹی سے الحاق ہے؟ جس پر ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ یونیورسٹوں کا صرف ویب پیچ تھا، کسی یونیورسٹی کا ایگزیکٹ سے الحاق نہیں تھا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے بھی ریمارکس دیئے کہ اگر کیمپس نہیں تو کلاس رومز بھی نہیں ہوں گے، ہمارے ہاں بھی ورچوئل یونیورسٹی ہے۔

بشیر میمن نے عدالت کو بتایا کہ ایک گھنٹے میں ڈگری مل جاتی تھی اور 5 ہزار ڈالرز میں ایگزیکٹ کی ڈگری ملتی تھی جبکہ تجربے کی بنیاد پر ایگزیکٹ کی ڈگری مل جاتی تھیں۔

جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ میرا قانون کا تجربہ ہے مجھے پی ایچ ڈی کی ڈگری مل سکتی ہے؟ جس پر بشیر میمن نے بتایا کہ تجربے کی بنیاد پر آپ کو قانون اور انگلش کی ڈگری مل سکتی ہے تاہم چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میری انگلش اتنی اچھی نہیں ہے۔

ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ ایگزیکٹ کا اپنا پلیٹ فارم ہے جو ایکری ڈیٹیشن بھی کرتا ہے۔

بشیر میمن کے جواب پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ یہ کمپنی ایکری ڈیٹیشن کیسے کرسکتی ہے، یونیورسٹیاں تو کسی قانون کے تحت بنتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی ڈگری کیس: شعیب شیخ و دیگر پر فرد جرم عائد

ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ویب پیج بنا کر ایکری ڈیٹیشن شروع کردی جاتی تھی اور یہ کام 2006 سے 2015 تک ہوتا رہا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر یہ درست ہے تو لوگوں کے ساتھ فراڈ ہوا، جب میڈیا پر خبریں آئیں تو ایف آئی اے نے معاملات کو دیکھنا شروع کیا۔

چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ اس جرم کو ثابت کرنے کے لیے ایف آئی اے کیا کرسکتا ہے؟ جس پر بشیر میمن نے بتایا کہ اسلام آباد کے مقدمے میں ملزم بری ہوچکے ہیں جبکہ ہمارا مرکزی کیس کراچی میں ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل زیر التوا ہے۔

اس موقع پر عدالت میں موجود رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نے بتایا کہ اس اپیل کو 22 فروی کو سماعت کے لیے مقرر کردیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کس جج کے سامنے کیس لگایا گیا ہے؟ جس پر رجسٹرار نے بتایا کہ جسٹس اطہر من اللہ کیس سنیں گے۔

چیف جسٹس نے حکم دیا کہ جسٹس اطہر من اللہ کے ساتھ جسٹس گل حسن کو بھی شامل کریں اور اسلام آباد ہائی کورٹ تین ہفتوں میں فیصلہ کرے۔

انہوں نے کہا کہ عوام میں افواہیں تھیں کہ اسلام آباد عدالت کے جج نے ضمانت کے لیے پیسے لیے، اس جج کا نام کیا ہے اور اس کے خلاف کیا کارروائی ہورہی ہے۔

رجسٹرار نے بتایا کہ جج کا نام پرویز القادر میمن ہے، جس پر چیف جسٹس نے بشیر میمن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو آپ کی برادری کا نکل آیا، جس پر بشیر میمن نے بتایا کہ یہ میرا عزیز ہے لیکن میں شرمندگی محسوس کرتا ہوں۔

عدالت میرا موقف بھی سنے، شعیب شیخ

سماعت کے دوران ایگزیکٹ کے سی ای او شعیب شیخ بھی پیش ہوئے اور عدالت کے سامنے اپنا موقف پیش کیا۔

سماعت کے دوران شعیب شیخ نے بتایا کہ جس طرح اس کیس کو گھمایا جارہا ہے سب کو پیغام دینا چاہتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے جو حکم دیا وہ درست ہے، میری استدعا ہے کہ ماتحت عدلیہ اور ہائی کورٹ مجھے سن کر فیصلہ کرے، یہ ملک کی عزت کے ساتھ ملک کے مستقبل کا بھی سوال ہے، عدالت دیکھے آج کل یہ کام ہورہا ہے یا نہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آج کل یہ کام نہیں ہورہا، آپ کے خلاف خبریں چلی ہیں تو ہتک عزت کا دعویٰ کریں، غلط خبر پر پیمرا معاملے کو دیکھے گا۔

مزید پڑھیں: ایگزیکٹ کے ساتھ دستاویزات کی تصدیق کا معاہدہ نہیں، امریکا

ایگزیکٹ کے سی ای او شعیب شیخ نے کہا کہ عدالت میرا موقف بھی سنیں، غلطی کی ہے تو معاف کردیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایگزیکٹ کمپنی پر جعلی ڈگری دینے کا الزام ہے اور لوگوں کو فون کال پر ڈگری دی جاتی تھی، جس پر شعیب شیخ نے کہا کہ ایف آئی نے جعلی ڈگری کے بارے میں غلط بیانی کی۔

پی بی اے کی درخواست پر نوٹس جاری

سماعت کے دوران پاکستان براڈ کاسٹر ایسوسی ایشن (پی بی اے) کی وکیل عاصمہ جہانگیر بھی پیش ہوئیں، جن کے دلائل پر شعیب شیخ نے اعتراض کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر ہم سے مخاطب ہیں اور انہوں نے آپ کو کچھ نہیں کہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے اس کیس پر از خود نوٹس اس لیے لیا کہ یہ مقدمہ ملک کی سالمیت سے متعلق ہے، جب کوئی معاملہ عوامی سطح پر آئے تو پھر ججز بھی جان سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ سماجی نوعیت کا مقدمہ ہے اور یہ میری قوم کی عزت اور ملک کے وقار کا معاملہ ہے۔

چیف جسٹس نے عاصمہ جہانگیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے تو یہ بتادیں آپ کا حق دعویٰ کیا ہے، یہ ایک سماجی الزام ہے، اگر کوئی چیز آپ کے پاس ہے تو ہمیں بتائیں، ہم ایف آئی اے کو معاملے کا جائزہ لینے کا کہیں گے۔

سماعت کے دوران پی بی اے کی درخواست پر شعیب شیخ کو نوٹس بھی جاری کیا گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دونوں جانب کا موقف سن کر فیصلہ کریں گے، درخواست میں تمام متاثرین کی تنخواہوں اور مراعات کا بھی بتائیں اگر وضاحت قابل قبول نہ ہوئی تو دیکھیں گے۔

اس موقع پر عدالت نے پی بی اے کی درخواست پر شعیب شیخ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرانے کا حکم دیا۔

بول متاثرین

ایگزیکٹ جعلی ڈگری کیس کی سماعت کے دوران بول کے متاثرین بھی پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ ہمیں بھی سنا جائے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سب کو سنیں گے میری عدالت میں کوئی ہاتھ کھڑا کرے تو اس کو ضرور سنتا ہوں، آپ کو بھی سنا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ دیکھنا ہے ملک کی عزت و تکریم متاثر تو نہیں ہوئی اور اگر ایسا ہوا ہے تو دیکھنا ہوگا کہ کیسے مداوا ہوگا۔

متاثرین نے موقف اختیار کیا کہ بول نے ہمیں 2015 سے تنخواہیں نہیں دیں ہیں۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بول کے متاثرین سے استفسار کیا کہ مجموعی طور پر کتنے متاثرین ہیں؟

جس پر انہوں نے کہا کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے 40 ہیں جبکہ ملک کے باقی شہروں میں بھی متاثرین موجود ہیں۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ تمام متاثرین کی فہرست دی جائے۔

سماعت کے دوران عدالت نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے فیصلے کی فائل منگوالی اور مقدمے کی سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی کمپنی پر دنیا بھر میں جعلی ڈگریاں بیچنے کا الزام

یاد رہے کہ ایگزیکٹ اسکینڈل مئی 2015 میں سامنے آیا تھا جب امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ مذکورہ کمپنی آن لائن جعلی ڈگریاں فروخت کرکے لاکھوں ڈالرز سالانہ کماتی ہے۔

بعد ازاں گزشتہ ماہ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ برطانیہ کے 3 ہزار لوگوں نے ایگزیکٹ سے جعلی ڈگی حاصل کی تھی۔

اس کے بعد 19 جنوری 2018 کو ان خبروں کی بنیاد پر چیف جسٹس پاکستان نے از خود نوٹس لیا تھا اور ڈی جی ایف آئی اے کو حکم دیا تھا کہ وہ 10 دن میں اپنی رپورٹ پیش کریں۔